Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا١ؕ وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قُلْ : کہ دیں اَتَعْبُدُوْنَ : کیا تم پوجتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے ضَرًّا : نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہی السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
تو کہہ دے کیا تم ایسی چیز کی بندگی کرتے ہو اللہ کو چھوڑ کر136 جو مالک نہیں تمہارے برے کی اور نہ بھلے کی اور اللہ وہی ہے سننے والا جاننے والا
136 یہ چوتھی بات ہے جو بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ کے تحت داخل ہے۔ تَعْبُدُوْنَ میں خطاب نصاریٰ سے ہے اور مِنْ دُوْنِ اللہِ سے حضرت مسیح اور ان کی والدہ مراد ہے۔ والخطاب للنصاریٰ نہاھم عن عبادۃ عیسیٰ ۔۔۔ (بحر ج 3 ص 538) والمراد بما لا یملک عیسیٰ او ھو وامہ علیہما الصلوہ والسلام (روح ج 6 ص 209) یہ نصاری کے عقیدہ الوہیت مسیح و مریم کے بطلان پر ایک اور دلیل ہے۔ مطلب یہ کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کو غائبانہ پکارتے ہو وہ تو تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ وہ عالم الغیب ہیں کہ تمہارا حال جان لیں اور تمہاری پکار سن لیں۔ یہ صفتیں صرف اللہ ہی میں ہے ہیں۔ وَاللہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ اس میں واؤ تعلیلیہ ہے اور یہ ماقبل کی علت ہے یعنی ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا تو اللہ ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ۔ اس میں ھُوَ ضمیر فصل اور خبر کے معرف باللام سے حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ ای واللہ ھو السمیع لکل شیء لا عیسیٰ وامہ العلیم بکل شیء ای لا عیسیٰ وامہ قالہ الشیخ قدس سرہ۔ فائدہ : عام مفسرین نے اگرچہ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ میں ما کو عموم پر محمول کیا ہے اور اس سے تمام احکام مراد لیے ہیں۔ لیکن مذکورہ چار امور کو انہوں نے مستقل احکام قرار دیا ہے اور ما انزل کے تحت داخل نہیں کیا۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے نزدیک ما عموم کے لیے ہے۔ جو تمام احکام کو شامل ہے اور مذکورہ چار باتیں مَا اُنْزِلَ کے تحت داخل ہیں۔ یعنی یہ چاروں ان امور میں داخل ہوتے ہیں جن کاتبلیغ میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا ہے۔ شیعہ کہتے ہیں اس آیت میں مَا اُنْزِلَ سے حضرت علی کی خلافت کا اعلان مراد ہے چناچہ اس پر وہ ایک روایت بھی پیش کرتے ہیں غدیر خم کے مقام پر آنحضرت ﷺ نے خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا : من کنت مولاہ فعلی مولاہ یعنی جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔ مولی سے وہ والی اور خلیفہ مراد لیتے ہیں۔ یہ استدلال کئی وجوہ سے درست نہیں ہے۔ 1 ۔ یہ روایت درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کے اکثر طرق ضعیف اور شاذ ہیں اور بعض طرق موضوع و مردود ہیں۔ جیسا کہ علامہ سید محمود آلوسی نے روح المعانی ج 6 ص 194 تا 198 میں اس پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ 2 ۔ لفظ مَوْلیٰ لغت عرب میں والی اور حاکم کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ مولیٰ کے معنی آقا، غلام، مددگار، دوست وغیرہ کے آتے ہیں۔ چناچہ علامہ محمد طاہر فرماتے ہیں۔ واسم الموالی یقع علی الرب والمالک والسید والمنعم والمعتق والناصر والمحب والتابع والجار وابن العم والحلیف والعقید و الصحر والعبد والمعتَق والمنعم علیہ الخ (مجمع بحار الانوار ص 464 ج 3) ۔ ان معانی میں والی یا حاکم کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لیے اس سے حضرت علی ؓ کی خلافت مراد لینا سراسر غلط ہے۔ )
Top