Jawahir-ul-Quran - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
بھلا تم دیکھو تو9 لات اور عزیٰ کو
9:۔ ” افرایتم “ تمہید کے بعد سورت کے پہلے دعوے کا ذکر ہے یعنی حاجات و مصائب میں ان خود ساختہ معبودوں کو غائبانہ مت پکارو۔ جب ثابت ہوگیا کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ پر وحی آتی ہے تو اس وحی ربانی کو مانو جو یہ کہتی ہے کہ مصائب و حاجات میں معبودانِ باطلہ کو مت پکارو۔ اللات، اس میں دو قراءتیں ہیں۔ اول بتخفیف تاء۔ دوم، بتشدید تاء، پہلی صورت میں یہ ” لوی “ سے مشتق ہے جس کے معنی لپٹنے اور گھومنے کے ہیں۔ مشرکین اس بات کے پاس عبادت کے لیے اعتکاف کرتے اور اس کا طواف کرتے تھے اس لیے وہ اس نام سے موسم کیا گیا۔ والاصل لویۃ بزنۃ فعلۃ من لوی لانھم کانوا یلوون علیہ و یعتکفون للعبادۃ، او یلتون علیہ ای یطوفون مخفف بحذف الیاء وبدالت واوہ الفا، وعوض عوض عن لالیاء تاء فصارت کتاء اخت وبنت (روح ج 27 ص 55) ۔ دوسری قراءت کے مطابق یہ لَتَّ یَلُتُّ کا اسم فاعل ہوگا اور اس کے معنی ہوں گے گھولنے والا۔ عرب میں ایک آدمی تھا حج کے موسم میں حاجیوں کو گھی میں ستو ملا کر کھلاتا تھا اور اللات اس لیے لوگ اس کو اچھا سمجھتے تھے جب وہ فوت ہوگیا تو اس کی شکل کا بت بنا کر اس کی پوجا پاٹ شروع کردی اور اسے پکارنے لگے۔ اللات بالتشدید علی انہ سمی بہ لانہ صورۃ رجل کان یلت السویق بالسمن ویطعم الحاج (بیضاوی) ۔ ” العزی “ یہ ایک شیطانہ (مادہ جن) تھی جو وادی نخلہ میں واقع کی کر کے تین درختوں میں رہتی تھی، وہاں مشرکین نے ایک عبادت گاہ بھی بنا رکھی تھی اور عزی کے نام پر کئی بت بھی تراش کر مختلف جگہوں میں رکھ لیے تھے۔ مشرکین جب وادی نخلہ میں عزی کی عبادت گاہ میں اس کی عبادت اور پکار کے لیے آتے تو وہ شیطانہ ان سے باتیں بھی کرتی تھی۔ وکانت بوادی نخلۃ الشامیۃ فوق ذات عرق فبنوا علیہا بیتا وکانوا یسمعون منہا الصوت۔ عن ابن عباس کانت العزی شیطانۃ تاتی ثلاث سمرات ببطن نخلۃ (قرطبی ج 17 ص 99) ۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ وہ ان تینوں درختوں کو کاٹ ڈالیں چناچہ جب وہ دو درختوں کو کاٹ کر تیسرے کو کاٹنے لگے تو اس سے ایک ڈائن نمودار ہوئی جس کے بال پراگندہ تھے اور واویلا کرنے لگی۔ حضرت خالد بن ولید نے اسے قتل کردیا۔ (روح، خازن، قرطبی) ۔ ” مناۃ “ یہ ایک بت تھا جس کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھا۔ مشرکین اس کی قربان گاہ پر اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دیتے اور اس کی برکت سے بارش طلب کرتے تھے۔ کانوا یریقون عندہ الدماء یتقربون بذلک الیہ (قرطبی ج 17 ص 101) ۔ ایک قراءت میں مناءۃ ہے۔ ومناءۃ مکی مفعلۃ من النوء کانہم کانوا یستمطرون عندھا الانواء تبرکا بھا (مدارک ج 4 ص 149) ۔ ” افرایتم “ بمعنی اخبرونی ہے یعنی مجھے بتاؤ تو سہی یہ لات و عزی اور منات جن کو تم پکارتے ہو کیا وہ تمہارے نفع نقصان کا اختیار کر کھتے ہیں ؟ کیا وہ قادر و متصرف ہیں ؟ کہ تم نے ان کو عبادت اور پکار میں خدا کا شریک بنا رکھا ہے۔ افرایتم ھذہ الالہۃ ھل نفعت او ضرت حتی کون شرکاء للہ (قرطبی ج 17 ص 102) ۔ اخبرونی عن الھتکم ھل لہا شیء من القدرۃ والعظمۃ التی وصف بہا رب العزۃ فی الای السابقۃ وقیل المعنی اظننتم ان ھذہ الاصنام التی تعبدونہا تنفعکم (روح ج 27 ص 56) ۔ استفہام انکاری ہے یعنی وہ نہ قادر و متصرف ہیں نہ نفع و نقصان کے مختار، اس لیے مصائب و حاجات میں ان کو مت پکارو۔
Top