Jawahir-ul-Quran - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا وقت نہیں آیا17 ایمان والوں کو کہ گڑ گڑائیں ان کے دل اللہ کی یاد سے اور جو اترا ہے سچا دین اور نہ ہوں ان جیسے جن کو کتاب ملی تھی اس سے پہلے پھر دراز گزری ان پر مدت پھر سخت ہوگئے ان کے دل اور بہت ان میں نافرمان ہیں
17:۔ ” الم یان “ یہ زجر ہے بعض مسلمانوں میں انفاق کے معاملے میں کچھ تکاسل آگیا تھا یہ ان پر زجر و عتاب ہے یا یہ منافقین پر زجر ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کتراتے تھے اس صورت میں ” امنوا “ سے امنوا باللسان مراد ہوں گے لیکن سیاق وسباق سے مناسب یہی ہے کہ اس سے بعض مخلص مومنین ہی مراد ہیں کیونکہ اکثر مخلصین تو ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے سرنگوں رہے ہیں۔ والمعاتب علی ما قالہ الزجاج طائفۃ من المومنین ولا فمنہم من لم یزل خاشعا منذ اسلم الی ان ذھب الی ربہ (روح ج 27 ص 178) ۔ الم یان من انی الامر یانی اذا جاء اناہ ای وقتہ (مدارک) ۔ اور ولا یکونو، تخشع پر معطوف ہے یا استیناف ہے بصیغہ امر غائب (بحر، مظہری) ۔ ان تخشع میں ان مصدریہ ہے اور جملہ بتاویل مفرد لم یان کا فاعل ہے اور وما نزل، ذکر اللہ پر معطوف ہے۔ فطال علیہم الامد، یعنی ان کے اور ان کے پیغمبروں کے درمیان زیادہ وقفہ گذر گیا یا کفر و معاصی میں ڈوبے ان کو کافی زمانہ گذر گیا۔ حاصل یہ ہے کہ کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر قرآن کی آیتوں کے آگے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے ان کے دل تسلیم و رضاء کے ساتھ عاجز ہوجائیں اور ان کا سر اطاعت ان کے آگے جھک جائے اور وہ ان اہل کتاب (یہود و نصاری) کی مانند نہ ہوجائیں جو کفر و عصیان میں انہماک یا انبیاء (علیہم السلام) کی اصل تعلیمان اور ان کی صحبت سے محروم ہوجانے کی وجہ سے ایسے سنگدل ہوچکے ہیں کہ اللہ کے کسی حکم کا، زجر و تہدید کا اور تبشیر و تخویف کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ ان میں سے بہت سے تو صریح طور پر خدا کے نافرمان اور باغی ہوچکے ہیں۔ اور ایمان والوں میں تو اللہ کا رسول موجود ہے اور اللہ کے تازہ بتازہ احکام نازل ہورہے ہیں اس لیے انہیں تو اللہ اللہ کے احکام کے آگے سراپا تسلیم ورضا بن جانا چاہیے۔ بعض روایتوں میں موجود ہے کہ جن مسلمانوں سے احکام الٰہیہ کی تعمیل میں کچھ سستی ہوئی تھی اس آیت کے نزول کے بعد انہوں نے اس کی تلافی کرلی۔
Top