Jawahir-ul-Quran - Al-Hadid : 20
اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ١ؕ كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا١ؕ وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ۙ وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌ١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
اِعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّمَا : بیشک الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی لَعِبٌ : کھیل ہے وَّلَهْوٌ : اور دل لگی ہے وَّزِيْنَةٌ : اور زینت ہے وَّتَفَاخُرٌۢ : اور باہم فخر کرنا بَيْنَكُمْ : آپس میں وَتَكَاثُرٌ : اور ایک دوسرے سے کثرت حاصل کرنا فِي الْاَمْوَالِ : مال میں وَالْاَوْلَادِ ۭ : اور اولاد میں كَمَثَلِ غَيْثٍ : مانند مثال ایک بارش کے ہے اَعْجَبَ الْكُفَّارَ : خوش کیا کسانوں کو نَبَاتُهٗ : اس کی نباتات نے ثُمَّ يَهِيْجُ : پھر وہ خشک ہوجاتی ہے فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا : پھر تم دیکھتے ہو اس کو کہ زرد ہوگئی ثُمَّ يَكُوْنُ : پھر وہ ہوجاتی ہے حُطَامًا ۭ : ریزہ ریزہ وَفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ : سخت عذاب ہے وَّمَغْفِرَةٌ : اور بخشش مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے وَرِضْوَانٌ ۭ : اور رضا مندی وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ : مگر دھوکے کا سامان
جان رکھو کہ دنیا کی22 زندگانی یہی ہے کھیل اور تماشا اور بناؤ اور بڑائیاں کرنی آپس میں اور بہتات ڈھونڈنی مال کی اور اولاد کی جیسے حالت ایک23 مینہ کی جو خوش لگا کسانوں کو اس کا سبزہ پھر زور پر آتا ہے پھر تو دیکھے زرد ہوگیا پھر ہوجاتا ہے روندا ہوا گھاس اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور معافی بھی ہے اللہ سے اور رضامندی اور دنیا کی زندگانی تو یہی ہے مال دغا کا
22:۔ ” اعلموا انما الحیوۃ “ یہ ترغیب انفاق کا چوتھا طریق ہے۔ مصدروں پر تنوین تنکیر، ان افعال کی حقارت اور قلت کے اظہار کے لیے ہے۔ تائید : متاع قلیل ثم ماواھم جہنم (آل عمران رکوع 20) ۔ تنوین تنکیر تحقیر و تقلیل کے لیے کلام میں اکثر آتی ہے (رضی) اللہ کی راہ میں خرچ کی ہوئی دولت کا معاوضہ اگر دنیا میں بصورت اضافہ دولت نہ ملا تو بھی مضائقہ نہیں۔ یہ دنیا چیز ہی کیا ہے۔ محض چند روزہ کھیل تماشا ہے، وقتی زینت و آرائش ہے اور یہاں حسب و نسب کی شرافت اور مال و اولاد کی کثرت و فراوانی پر ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی برتری ثابت کرنے اور اپنی بڑائی پر فخر کے سوا کیا ہے ؟ اگر تمہیں دنیا ہی میں اس کا عوض مل جاتا تو تم اپنی فضول باتوں میں اس کو اڑا دیتے۔ اس کا اجر وثواب محفوظ ہے جو آخرت میں تمہیں ملے گا دنیا کی یہ چہل پہل آنی فانی ہے اس میں دل نہ لگاؤ آخرت کی فکر کرو۔ 23:۔ ” کمثل غیث “ یہ دنیا کی حقا ارت اور فانی ہونے کی تمثیل ہے۔ ” الکفار “ سے کاشت کار مراد ہیں کیونکہ انہیں اپنا کھیت سرسبز و شاداب دیکھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے اس صورت میں یہ لفظ اپنے لغوی معنوں پر محمول ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ لفظ اپنے لغوی معنوں پر محمول ہوگا یعنی بیج کو زمین میں چھپانے والے۔ علی ماروی عن ابن مسعود، لانھم یکفرون ای یسترون البذر فی الارض (روح ج 27 ص 184) ۔ یا اس سے مراد کافر لوگ مراد ہیں اور ان کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ کفار دنیا کی زینت کو دیکھ کر اس میں گم ہوجاتے ہیں، لیکن مومنین دنیا کی ہر خوبصورت چیز سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر استدلال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ابو نواس نے گل نرگس کی تعریف میں کہا ہے عیون من لجین شاخصات اطرافہا ذھب سبیل علی قضب الزبرجد شاھدات (بان اللہ لیس شریک) (روح) دنیا کی نا پائیداری کی مثال ایس ہے۔ جیسے بارش کی وجہ سے زمین پر سرسبزر و شاداب نباتات لہلہانے لگے اور دیکھنے والے انہیں دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔ یہاں تک کہ نبات اپنے جوبن پر پہنچ جائے۔ اس کے بعد تم دیکھو گے کہ اس کا رنگ زرد ہورہا ہے آخر جب وہ پک جائے گی تو کاٹ ڈالی جائے گی اسی طرح اس دنیا کی زینت و آرائش بھی چند روزہ ہے۔ ” وفی الاخرۃ عذاب شدید “ جو لوگ آخرت سے بیخبر ہو کر دنیا میں منہمک ہوجائیں گے۔ آخرت میں ان کے لیے سخت ترین عذاب ہوگا۔ ” و مغفرۃ من اللہ ورضوان “ اور جن لوگوں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی، اللہ کے احکام کے سامنے سر جھکا دیا اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا ان کو اللہ کی طرف سے بخشش اور رضائے الٰہی کا پروانہ ملے گا۔ ” وما الحیوۃ الدنیا “ جو شخص دنیا کی زندگی کو عیش و طرب میں گذار دے اور آخرت سے غافل ہوجائے اس کے لیے دنیا فریب کا سامان ہے اور اگر حیات دنیا میں آخرت کے لیے تیار کرتا رہا تو یہ زندگی ایک بہتر زندگی تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے گی۔ متاع الغرور ای لمن عمل لہا ولم یعمل للاخرۃ فمن اشتغل فی الدنیا بطلب الاخرۃ فھی لہ بلاغ الی موھو خیر منہ (خازن ج 7 ص 36) ۔
Top