Jawahir-ul-Quran - Al-Hadid : 27
ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ١ۙ۬ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ رَهْبَانِیَّةَ اِ۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا١ۚ فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
ثُمَّ : پھر قَفَّيْنَا : پے در پے بھیجے ہم نے عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ : ان کے آثار پر بِرُسُلِنَا : اپنے رسول وَقَفَّيْنَا : اور پیچھے بھیجا ہم نے بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ : عیسیٰ ابن مریم کو وَاٰتَيْنٰهُ : اور عطا کی ہم نے اس کو الْاِنْجِيْلَ : انجیل وَجَعَلْنَا : اور ڈال دیا ہم نے فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ : ان لوگوں کے جنہوں نے پیروی کی اس کی رَاْفَةً : شفقت کو وَّرَحْمَةً ۭ : اور رحمت کو وَرَهْبَانِيَّةَۨ : اور رہبانیت ابْتَدَعُوْهَا : انہوں نے ایجاد کیا اس کو مَا كَتَبْنٰهَا : نہیں فرض کیا تھا ہم نے اس کو عَلَيْهِمْ : ان پر اِلَّا ابْتِغَآءَ : مگر تلاش کرنے کو رِضْوَانِ : رضا اللّٰهِ : اللہ کی فَمَا رَعَوْهَا : تو نہیں انہوں نے رعایت کی اس کی حَقَّ رِعَايَتِهَا ۚ : جیسے حق تھا اس کی رعایت کا۔ نگہبانی کا۔ پابندی کا فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ : تو دیا ہم نے ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے مِنْهُمْ : ان میں سے اَجْرَهُمْ ۚ : ان کا اجر وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : فاسق ہیں
پھر پیچھے بھیجے ان کے قدموں پر29 اپنے رسول اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو اور اس کو ہم نے دی انجیل اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی ہم نے نہیں لکھا تھا یہ مگر ان پر کیا چاہنے کو اللہ کی رضامندی پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہیے تھا نباہنا پھر دیا ہم نے30 ان لوگوں کو جو ان میں ایماندار تھے ان کا بدلہ اور بہت ان میں نافرمان ہیں۔
29:۔ ” ثم قفینا “ ان کے بعد ہم پے در پے پیغمبر بھیجتے رہے یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سب سکے بعد ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس پر کتاب انجیل نازل کی جس میں مسئلہ توحید اور دیگر احکام شریعت کا بیان تھا جن لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں محبت و الفت پیدا کردی اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے نہایت محبت و مودت کا سلوک کرتے تھے۔۔ ” ورھبانیۃ ابتدعوہا “ رھبانیۃ، عزلت، ریاضت، لوگوں سے علیحدگی اختیار کر کے اللہ کی عبادت میں مصروف ہوجانا، اس کا ناصب علی شریطۃ التفسیر محذوف ہے۔ منصوب بفعل مضمر یفسرہ الظاہر ای وابتدعوا رھبانیۃ (روح ج 27 ص 190) ۔ ” الا ابتغاء وجہ اللہ “ کتبناھا میں ضمیر مفعول سے بدل ہے یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین میں سے ایک جماعت نے رہبانیت از خود اختراع کی تھی ہم نے سرے سے ان پر فرض کی ہی نہ تھی ہم نے تو ان پر اللہ کی رضا جوئی فرض کی تھی لیکن جو چیز انہوں نے اپنی طرف سے اپنے اوپر لازم کرلی تھی آخر وہ اس کا بھی حق ادا نہ کرسکے اور رہبانیت پر پورے نہ اتر سکے۔ والمعنی ما کتبنا علیہم الا ابتغاء رضوان اللہ (قرطبی ج 17 ص 263) ۔ یا استثناء منقطع ہے۔ یعنی رہبانیت کو ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خودہی اللہ کی رضا جوئی کے لیے اسے اپنے اوپر لازم کرلیا تھا، لیکن پھر اس کا حق ادا نہ کرسکے۔ استثناء منقطع ای مافرضناھا نحن علیھم راسا ولکن ابتدعوھا والزموا انفسہم بھا ابتغاء رضوان اللہ تعالیٰ (روح) ۔ یا استثناء متصل ہے یعنی رہبانیت کو انہوں نے اختراع کیا اور ہم نے رضا الٰہی حاصل کرنے کے لیے ان پر اس کو مقرر کردیا۔ استثناء متصل والمعنی انا ماتعبدناہم بھا الا علی وجہ ابتغاء مرضاۃ اللہ تعالیٰ (کبیر) ۔ ابتدا میں جن لوگوں نے رہبانیت اختیار کی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ نہ تو جہاد کی طاقت رکھتے تھے اور نہ امر بالمعروف کی تو انہوں نے عزلت اختیار کرلی مگر بعد میں لوگ اس کی رعایت نہ کرسکے۔ 30:۔ ” فاتینا الذین امنوا “ اس سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخلص جان نثار حواریین مراد ہیں جنہوں نے دین حق کی خاطر جہاد کی اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے اور دین عیسوی کے سچے متبع تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن مسعود ! بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے ان میں سے صرف تین فرقے بچے باقی سب ہلاک اور جہنمی ہوئے اول وہ جنہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کیا اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کی اور کفار سے جہاد کیا۔ ان لوگوں کے بارے میں وارد ہے ” فایدنا الذین امونا علی عدوھم فاصبحوا ظاہرین “ (صف رکوع 2) ۔ دوم وہ جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے تھے۔ سوم وہ جو ان دونوں کاموں کی طاقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے عزلت اور رہبانیت اختیار کی اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ یا ابن مسعود اما علمت ان بنی اسرائیل تفرقوا (ثنتین و) سبعین فرقۃ کلہا فی النار الا ثلاث فرق، فرۃ امنت بعیسی (علیہ السلام) وقاتلوا اعداء اللہ فی نصرتہ حتی قتلوا، وفرقۃ لم یکن لھا طاقۃ بالقتال، فامروا بالمعروف ونھو عن المنکر، وفرقۃ لم یکن لہا طاقۃ بالامرین، فلبسوا العباء وخرجو الی القفار والفیافی (روح ج 27 ص 192 و کبیر ج 8 ص 145 واللظ لہ بتغیر) ۔ ” وکثیر منہم فاسقون “ ان تینوں فرقوں کے علاوہ باقی اکثریت راہ راست سے ہٹ کر کفر و شرک اور تثلیث میں مبتلا ہوگئی۔
Top