Jawahir-ul-Quran - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
یقین لاؤ6 اللہ پر اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس میں سے7 جو تمہارے ہاتھ میں دیا ہے اپنا نائب کر کر8 سو جو لوگ تم پر یقین لائے ہیں اور خرچ کرتے ہیں ان کو بڑا ثواب ہے
6:۔ ” امنوا باللہ “ یہ سورة الحدید کے پہلے مضمون ینی انفاق فی سبیل اللہ کا بیان ہے اور پانچ طریقوں سے خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ خطاب چونکہ مومنین سے ہے اس لیے یہاں ” امنو “ حقیقت پر محمول نہیں ہوگا یعنی ” ایمان لاؤ “ بلکہ مراد یہ ہے کہ ایمان پر قائم رہو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام مانو اور ان پر عمل کرو۔ کیونکہ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ ” وانفقوا “ یہ امنو پر معطوف ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے نزدیک یہ عطف تفسیری ہے اور ایمان کے بعض تقاضوں کی تفسیر ہے حاصل یہ ہے کہ اللہ کے اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی تعمیل کرو جن میں سے فی الوقت سب سے زیادہ ضروری اور اہم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی، توحید کی اشاعت اور کفر و شرک کو مٹانے کے لیے مال خرچ کرو۔ امر تعالیٰ عبادہ المومنین بالثبات علی الایمان وادامتہ والنفقۃ فی سبیل اللہ (بحر ج 8 ص 218) ۔ 7:۔ ” مما جعلکم مستخلفین فیہ “ یہ ترغیب الی الانفاق کا پہلا طریق ہے۔ حاصل یہ کہ درحقیقت یہ مال تو ہے ہی میرا میں نے چند دنوں کیلئے تم کو اس میں جانشین اور متصرف بنایا ہے۔ اب اگر تم اس مال میں سے کچھ میری راہ میں خرچ کرو گے تو اپنے پاس سے تو کچھ بھی نہیں دو گے، بلکہ میری اپنی ہی چیز مجھے واپس دو گے اس انداز بیان میں حکمت یہ ہے کہ اگر یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں اتر جائے تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ان پر دشوار نہیں رہے گا بلکہ آسان ہوجائے گا اور وہ خوشی سے دین کی خدمت میں مال خرچ کریں گے۔ عبر جل شان عما بایدیہم من الاموال بذلک تحقیقا للحق وترغیبا فی الانفاق، فان من علم انہا للہ تعالیٰ وانما ھو بمنزلۃ الوکیل یصرفہا الی ما عینہ اللہ تعالیٰ من المصارف ھان علیہ الانفاق (روح ج 27 ص 169) ۔ 8:۔ ” فالذین امنوا “ یہ ترغیب الی الانفاق اور بشارت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کس قدر مہربانی اور نوازش ہے کہ لوگوں کے پاس جو مال ہے وہ ہے بھی اسی کا۔ لیکن پھر بھی جو لوگ اس کی راہ میں خرچ کریں گے انہیں دنیا اور آخرت میں ثواب اور جنت مرحمت فرمائیگا۔ ” وما لکم لا تومنون۔ الایۃ “ خطاب مومنوں سے ہے اور ایمان حاصل معنی مراد ہے۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ ای ومالکم لا تنفقون فی سبیل اللہ۔ اسی ” لتومنوا بربکم ای لتنفقوا فی سبیل ربکم “ اور میثاق سے عہد الست مراد نہیں اس سے وہ عہد مراد ہے جو انہوں نے پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) کے ہاتھ پر بیعت کرتے وقت باندھا تھا کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے تمام احکام کو مانیں گے۔ حاصل یہ ہوا کہ کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ؟ حالانکہ خدا کا پیغمبر تمہیں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے اور حکم فرمارہا ہے اور تم سمع اور طاعت کا عہد بھی کرچکے ہو۔ اگر تم واقعی سچے مومن ہو تو اس حکم کی تعمیل کرو اور اللہ کی راہ میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرلو۔ ہذا ما قالہ الشیخ (رح) تعالی۔
Top