Jawahir-ul-Quran - Al-An'aam : 23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَمْ تَكُنْ : نہ ہوگی۔ نہ رہی فِتْنَتُهُمْ : ان کی شرارت اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : وہ کہیں وَاللّٰهِ : قسم اللہ کی رَبِّنَا : ہمارا رب مَا كُنَّا : نہ تھے ہم مُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
پھر نہ رہے گا ان کے پاس کوئی فریب مگر یہی کہ کہیں گے27 قسم ہے اللہ کی جو ہمارا رب ہے ہم نہ تھے شرک کرنے والے
27 فِتنَۃٌ کے معنی گمراہی کے ہیں اور یہاں اس سے مشرکین کا جواب مراد ہے۔ چونکہ مشرکین کا جواب صریح جھوٹ ہوگا اس لیے اسے فتنۃ سے تعبیر فرمایا ثم لم یکن جو ابھم الا ان قالوا نسفی فتنۃ لانہ کذب (مدارک ج 2 ص 6 فی البحر ج 4 ص 95 والقرطبی ج 6 ص 401 یقرب منہ) ۔ حضرت شیخ قدس سرہ ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُھُمْ کا ترجمہ اس طرح فرماتے تھے پھر نہیں ہوگا گندا جواب ان کا۔ مشرکین جب اپنے کو بےبسی اور بیچارگی کے عالم میں پائیں گے تو خیال کریں گے کہ وہ دنیا میں شرک کرنے کا سرے سے انکار ہی کردیں۔ شاید اس طرح عذاب سے بچ جائیں۔ اس خیال پر وہ یہ جھوٹ بولیں گے اور اللہ کے نام کی قسم کھا کر یہ جھوٹا جواب دیں گے کہ وہ سرے سے مشرک تھے ہی نہیں اور انہوں نے دنیا میں ہرگز شرک نہیں کیا جیسا کہ دوسری جگہ ان کا جواب اس طرح نقل کیا گیا ہے۔ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَّدْعُوْ ا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا (مومن ع 8) بل اضرابیہ ہے۔ پہلے تو کہیں گے کہ آج ہمارے سفارشی اور کارساز غائب ہوگئے ہیں۔ پھر اس بات سے اعراض کر کے فوراً کہیں گے کہ ہم تو اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہی نہیں تھے۔
Top