Jawahir-ul-Quran - Al-Qalam : 46
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَۚ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : یا تم سوال کرتے ہو ان سے اَجْرًا : کسی اجر کا فَهُمْ : تو وہ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : دبے جاتے ہوں
کیا تو مانگتا ہے22 ان سے کچھ حق سو ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے
22:۔” ام تسئلہم “ یہ معاندین کیوں نہیں مانتے، کیا آپ تبلیغ و ارشاد پر ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے اور وہ اس تاوان کو بوجھ سمجھ کر آپ سے اعراض کرتے ہیں ؟ استفہام انکاری ہے یعنی ایسا نہیں ہے۔ آپ ان سے کسی معاوضہ یا مالی تعاون کا مطالبہ نہیں کرتے، تو پھر ان کے انکار وجحود کی کیا وجہ ہے ؟ ” ام عندھم الغیب “ یا ان کے پاس غیب سے علم آتا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ان کے معبود برکات دہندہ ہیں جسے وہ لکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے مطابق من مانی باتیں کرتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کے علم سے بےنیاز ہیں اور اسی لیے آپ کو نہیں مانتے ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے۔ (ام عندھم الغیب فھم یکتبون) مایحکمون بہ ویستغنون بذلک من علمک (روح ج 29 ص 37) ۔ حاصل یہ ہے کہ آپ ان کو بلا معاوضہ توحید کی دعوت دیتے ہیں اور وہ محض جہالت اور ضد وعناد کی وجہ سے آپ کی تکذیب کر رہے ہیں۔
Top