Jawahir-ul-Quran - Al-A'raaf : 131
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ١ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب جَآءَتْهُمُ : آئی ان کے پاس الْحَسَنَةُ : بھلائی قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَنَا : ہمارے لیے هٰذِهٖ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُصِبْهُمْ : پہنچتی سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّطَّيَّرُوْا : بدشگونی لیتے بِمُوْسٰي : موسیٰ سے وَمَنْ مَّعَهٗ : اور جو ان کے ساتھ (ساتھی) اَلَآ : یاد رکھو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں طٰٓئِرُهُمْ : ان کی بدنصیبی عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
پھر جب پہنچی ان کو124 بھلائی کہنے لگے یہ ہے ہمارے لائق اور اگر پہنچی برائی تو نحوست بتلاتے موسیٰ کی اور اس کے ساتھ والوں کی سن لو ان کی شومی تو اللہ کے پاس ہے پر اکثر لوگ نہیں جانتے
124: قوم فرعون پر جب کبھی فراخی اور راحت آجاتی تو کہتے ہم اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے اسی کے مستحق ہیں لیکن اگر کوئی مالی یا جانی تکلیف پہنچ جاتی تو اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کی طرف منسوب کرتے اور کہتے یہ سب انہی کی نحوست ہے۔ “ عیاذا بالله۔ اَلَا اِنَّمَا طٰٓئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ” حضرت ابن عباس فرماتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان پر جو تکلیف و مصیبت آرہی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی قضاء و قدر سے ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور مومنوں کی نحوست کو کوئی دخل نہیں۔ “ قال ابن عباس طائرھم ما یصیبھم ای ماطار لھم فی القدر مما ھم لا قوة ”(بحر ج 4 ص 370) ۔
Top