Jawahir-ul-Quran - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
کچھ وہ13 اپنے گناہوں سے دبائے گئے پھر ڈالے گئے آگ میں پھر نہ پائے اپنے واسطے انہوں نے اللہ کے سوا کوئی مددگار
13:۔ ” مما خطیئتہم “ یہ تخویف ہے اور من سببیہ ہے۔ ” فادخلوا “ میں فاء تعقیب بلا تاخیر کے لیے ہے۔ ” من دون اللہ “ سے ان کے خود ساختہ معبود ” ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر “ وغیرہ مراد ہیں۔ یعنی قوم نوح (علیہ السلام) کو ان کے گناہوں کی وجہ سے غرق کردیا گیا پھر فورًا ہی ان کو آگ میں داخل کردیا گیا۔ تو اللہ کے سوا جن کو وہ پکارتے تھے ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ یہ آیت عذاب قبر کے اثبات پر اہل سنت کی محکم دلیل ہے۔ کیونکہ غرق کے فورًا بعد ان کو جس آگ میں داخل کیا گیا وہ آخرت کی آگ نہیں، کیونکہ قیامت تو تاہنوز قائم ہی نہیں ہوئی، اس لیے اس سے لامحالہ عالم برزخ کا عذاب ہی مراد ہے جسے اصطلاح شریعت میں عذاب قبر سے تعبیر کیا گیا ہے (فادخلوا نارا) فی عالم البرزخ المسمی بالقبر فانہ روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفرات النیران فھذہ الایۃ دلیل علی اثبات عذاب القبر لان الفاء للتعقیب (مظہری ج 10 ص 77) (فاخلوا نارا) ھی نار البرزخ والمراد عذاب القبر (روح ج 29 ص 79) ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہو اور فادخلوا سے مراد فحکم بدخولہم النار فی الاخرۃ (الشیخ (رح) تعالی) ۔ یا اغراق اور ادخال جہنم کے درمینی عرصے کو غیر معتد بہ قرار دے کر ادخال پر فاء داخل کی گئی ہو (روح) ۔
Top