بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
کبھی2 گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں کہ نہ تھا وہ کوئی چیز جو زبان پر آتی
2:۔ ” ھل اتی “ ھل یہاں باتفاق مفسرین تاکید کے لیے بمعنی قد اتفقوا علی ان ھل ھہنا وفی قولہ تعالیٰ ھل اتاک حدیث الغاشیۃ بمعنی قد (کبیر ج 8 ص 384) ۔ یہاں حشر و نشر پر بطور دلیل انسان کی پیدائش کو بطور نمونہ پیش کیا گیا۔ ہر انسان پر طویل عرصی ایسا آچکا ہے کہ اس عرصہ میں اس کا نام و نشان تک موجود نہیں تھا۔ ” انا خلقنا الانسان “ امشاج مفرد ہے، جمع نہیں جیسا کہ اس کی بناء سے وہم ہوتا ہے کیونکہ وہ نفۃ مفرد کی صفت واقع ہوا ہے۔ جیسا کہ برمۃ اعشار، ثوب اخلاق اور ارض سباسب اور امشاج کے معنی ہیں۔ مختلط یعنی باہم ملا جلا چونکہ انسان ماں باپ کے نطفوں کے اختلاط سے پیدا ہوتا ہے اس لیے نطفہ کو امشاج سے متصف فرمایا۔ سمع وبصر، عقل و دانش اور فہم وتمیز سے کنایہ ہے پہلے ہر انسان کا نام ونشان تک نہیں تھا۔ پھر ہم نے اس کو ماں باپ کے مخلوط نطفہ سے پیدا کیا اور اس کو عقل وتمیز کی نعمتوں سے سرفراز کیا تاکہ اس کی آزمائش کریں کہ وہ خداداد عقل و فہم سے کام لے کر اللہ کی ہدایت کو قبول کرتا ہے یا عقل و خرد سے کام نہ لے کر خدا سے بغاوت کرتا ہے۔ یہ۔ یہ حشر و نشر کیلئے ایک نمونہ ہے۔ انسان کو عدم سے وجود میں لانا اور ایک معمولی قطرہ منی سے اس کو پیدا کرنا پھر اس کو عقل و خرد اور فہم و تمییز ایسی خوبیوں سے متصف کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ایک کرشمہ ہے۔ اسی طرح انسانوں کو قیامت کے دن دوبارہ پیدا کرنے پر بھی وہ قادر ہے۔
Top