Jawahir-ul-Quran - An-Naba : 6
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ
اَ لَمْ : کیا نہیں نَجْعَلِ : ہم نے بنایا الْاَرْضَ : زمین کو مِهٰدًا : فرش
کیا4 ہم نے نہیں بنایا زمین کو بچھونا
4:۔ ” اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ “۔ دنیوی نعمتوں کا بیان ہے۔ دنیوی تکلیفوں کا ذکر مقایسۃً ترک کردیا گیا ہے۔ ” مِہَادًا “ فراش، بستر۔ ” اَوْتَاد “ وتد کی جمع ہے یعنی میخیں۔ جس طرح میخوں سے کسی چیز کو محکم کردیا جاتا ہے اسی طرح پہاڑوں سے زمین کو بوجھل کر کے مستحکم کردیا گیا ہے تاکہ وہ ہل جل کر باسیوں کے لیے تشویش اور ابتری کا باعث نہ بنے۔ ” اَزْوَاجًا “ یعنی نر و مادہ۔ ” سُبَاتًا “ ترک اعمال سے راحت و آرام کا باعث۔ ” لِبَاسًا “ پردہ اور ستر۔ رات ان چیزوں کی پردہ پوشی کرتی ہے جن کو آدمی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا۔ ” مَعَاشًا “ ظرف زمان۔ روزی کمانے کا وقت۔ ” سَبْعًا شِدَادًا “ شدیدۃ کی جمع مضبوط اور محکم۔ ساتوں آسمان نہایت مضبوط اور مستحکم ہیں نہ گر سکتے ہیں نہ ان میں ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ ہے الا اذا جاء وعد اللہ۔ ” سِرَاجًا وَّھَّاجًا “ روشن اور جگمگاتا چراغ جس میں روشنی بھی ہے اور حرارت بھی۔ مراد سورج ہے۔ ” اَلْمُعْصِراتِ “ وہ بادل جو برسنے ہی والے ہوں۔ ” ثَجَّاجًا “ بکثرت بہنے والا۔ ” اَلْفَافًا “ گنجان۔ یہ استفہام انکاری ہے۔ یہ اسلوب زیادہ مؤثر ہے کیونکہ اس میں مخاطب کی طرف سے اقرار و اعتراف کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جس طرح ہم نے تم کو دنیا میں یہ نعمتیں عطا کی ہیں اور مصائب بھی ہماری طرف سے آتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ہم مومنوں کو انعامت دیں گے اور نافرمانوں کو عذاب کا مزہ چکھائیں گے ان دنیوی انعامات کی فراوانی سے ہماری قدرت کاملہ کا اندازہ لگالو تو کیا دوبارہ زندہ کرنا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے ؟۔ لما انکروا البعث قیل لھم الم یخلق من اضیف الیہ البعث ھذہ الخلائق العجیبۃ فلم تنکرون قدرتہ علی البعث وما ھو الاکتراع کہذہ الاختراعات (مدارک) ۔
Top