Jawahir-ul-Quran - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور جب وہ کہنے لگے34 کہ یا اللہ اگر یہی دین حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر برسادے پتھر آسمان سے یا لا ہم پر کوئی عذاب دردناک
34: یہ ساتویں علت ہے۔ نضر بن حارث، ابوجہل اور دیگر صنادید قریش نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ اگر یہ اسلام اور قرآن جو محمد ﷺ لے کر آئے سچا ہے اور تیری طرف سے ہے۔ تو ہمیں آسمان سے پتھر برسا کر یا کسی دوسرے المناک عذاب سے ہلاک کردے۔ چناچہ مشرکین خود اپنے منہ سے عذاب کا مطالبہ کر کے مکہ سے نکلے تھے۔ اس لیے اللہ نے بدر میں ان پر منہ مانگا عذاب نازل کر ان کو مغلوب اور تم کو غالب کیا۔ اس لیے اب انفال کی تقسیم اللہ ہی کے حکم کے مطابق کرو۔ “ وَ مَا کَانَ اللّٰهُ الخ ” یہ مشرکین پر عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ ہے یعنی اللہ کی سنت مستمرہ یہ ہے کہ جب تک پیغمبر اور مومنین شہر میں موجود ہوں اس وقت تک ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا۔ اس لیے فرمایا یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ آپ ان میں موجود ہوں اور ان پر عذاب آجائے۔ کیونکہ اگر آپ کے ان میں موجود ہوتے ہوئے ان پر عذاب آجاتا تو وہ ظالم یہ نہ سمجھتے کہ عذاب ان کے شرک کی وجہ سے آیا ہے۔ بلکہ آپ کی ذات کو اس کا سبب قرار دے کر کہتے کہ یہ عذاب تیری وجہ سے آیا ہے۔ جیسا کہ قوم موسیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے بارے میں کہا تھا۔ “ اطَّيَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ ، قال ابن عباس لم یعذب اھل قرية حتی يخرج النبي صلی اللہ علیه منھا والمومنون و یلحقوا بحیث امروا ” (قرطبی 7 ص 299) ۔
Top