Jawahir-ul-Quran - At-Tawba : 129
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ١ۖۗ٘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَاِنْ تَوَلَّوْا : پھر اگر وہ منہ موڑیں فَقُلْ : تو کہ دیں حَسْبِيَ : مجھے کافی ہے اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا عَلَيْهِ : اس پر تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا وَھُوَ : اور وہ رَبُّ : مالک الْعَرْشِ : عرش الْعَظِيْمِ : عظیم
پھر بھی اگر منہ پھیریں122 تو کہہ دے کہ کافی ہے مجھ کو اللہ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی مالک ہے عرش عظیم کا
122:“ فَاِنْ تَوَلَّوْا الخ ” آخر میں مسئلہ توحید کا اعادہ ہے جس کی خاطر جہاد کا حکم دیا گیا۔ سورة توبہ میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات “ بَرَاءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ” (رکوع 1) ۔ مشرکین سے بیزاری کا اعلان۔ “ مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ ” تا “ فَعَسیٰ اُولٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ” (رکوع 3) ۔ تعمیر مسجد اور اس کے علاوہ کوئی نیک عمل مشرکین سے قبول نہیں “ اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَ عِمَارةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” تا “ وَاللّٰه لَا یَھْدِيْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ” (رکوع 3) ۔ مشرکین کے نیک اعمال مومنوں کے نیک اعمال کے مقابلہ میں بالکل بےوقعت ہیں۔ “ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ ” (رکوع 4) ۔ مومنوں کو ہر وقت اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور کثرت عدد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ “ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّم اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَایَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ ”۔ یعنی غیر اللہ کی نیازوں کا حرام نہیں سمجھتے۔ “ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرٰي الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ ” تا “ قٰتَلَھُمُ اللّٰهُ اَنّٰی یُؤفَکُوْنَ ” (رکوع 5) ۔ یہود و نصاریٰ پیغمبروں کو اللہ کے کے جزو سمجھتے اور ان کو حاضر و ناظر سمجھ کر حاجات میں پکارتے تھے۔ “ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ” تا “ سُبْحٰنَه عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ” (رکوع 5) ۔ وہ پیغمبروں کے علاوہ اپنے مولویوں اور پیروں کو بھی اللہ کے سوا حاجت روا سمجھتے تھے۔ “ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ”۔ اکثر مولوی اور پیر غیر اللہ کی نیازیں کھاتے اور اللہ کی توحید سے روکتے ہیں۔ “ اِنَّمَا النَّسِیئُ زِیَادَةٌ فِیْ الْکُفْرِ ” تا “ وَ اللّٰهُ لَایَھْدِیْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ” (رکوع 5) ۔ اپنی طرف سے کئی قسم کی تحریمات مقرر کر رکھی تھیں۔ “ وَ لَوْا اَنَّھُمْ رَضُوْا مَا اٰتٰھُمُ اللّٰه وَرَسُولُهٗ ” تا “ اِنَّا اِلَی اللّٰهِ رَاغِبُوْنَ ” (رکوع 7) ۔ یعنی جو ان کو اللہ کی عنایت اور پیغمبر (علیہ السلام) کے مال غنیمت وغیرہ کو تقسیم کرنے سے ملا اس پر وہ راضی ہوجاتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ “ وَ مَا نَقَمُوْا اِلَّا اَنْ اَغْنٰھُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ” (کوع 10) ۔ یعنی اللہ نے اپنی عنایت سے اور پیغمبر نے مال غنیمت وغیرہ سے۔ “ وَ سَیَرَي اللّٰهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُهٗ ” تا “ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُوْن ”۔ (رکوع 12) ۔ منافقین جو اعمال پیغمبر (علیہ السلام) کے سامنے کرتے تھے، آپ ان کو دیکھتے تھے۔ “ وَ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَاتَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ” (رکوع 13) ۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر (علیہ السلام) غیب دان نہ تھے۔ “ وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَي اللّٰهُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْن ”۔ وہی اعمال مراد ہیں جو پیغمبر (علیہ السلام) اور مؤمنوں کے سامنے منافقین کرتے تھے۔ “ مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُوْلِیْ قُرْبیٰ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْم ” (رکوع 14) ۔ شرک پر مرجانے کے بعد ان کے لیے استغفار جائز نہیں، ممنوع ہے۔ “ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ ” تا “ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ ”۔ (رکوع 16) ۔ یہ وہ مسئلہ توحید ہے جس کی خاطر جہاد کا حکم دیا گیا اور صحابہ کو فضیلت و شان ملی اور منافقین پر زجریں نازل ہوئیں۔ سورة توبہ ختم ہوئی
Top