Jawahir-ul-Quran - At-Tawba : 74
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا١ؕ وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا١ۚ وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ١ۚ وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًا١ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی مَا قَالُوْا : نہیں انہوں نے کہا وَلَقَدْ قَالُوْا : حالانکہ ضرور انہوں نے کہا كَلِمَةَ الْكُفْرِ : کفر کا کلمہ وَكَفَرُوْا : اور انہوں نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِسْلَامِهِمْ : ان کا (اپنا) اسلام وَهَمُّوْا : اور قصد کیا انہوں نے بِمَا : اس کا جو لَمْ يَنَالُوْا : انہیں نہ ملی وَ : اور مَا نَقَمُوْٓا : انہوں نے بدلہ نہ دیا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں غنی کردیا اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَاِنْ : سو اگر يَّتُوْبُوْا : وہ توبہ کرلیں يَكُ : ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ : ان کے لیے وَاِنْ : اور اگر يَّتَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں يُعَذِّبْهُمُ : عذاب دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مِنْ : کوئی وَّلِيٍّ : حمایتی وَّلَا : اور نہ نَصِيْرٍ : کوئی مددگار
قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ ہم نے نہیں کہا69 اور بیشک کہا ہے انہوں نے لفظ کفر کا اور منکر ہوگئے مسلمان ہو کر اور قصد کیا تھا اس چیز کا جو ان کو نہ ملی اور یہ سب کچھ اسی کا بدلہ تھا کہ دولت مند کردیا ان کو اللہ نے اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے70 سو اگر توبہ کرلیں تو بھلا ہے ان کے حق میں71 اور اگر نہ مانیں گے تو عذاب دے گا ان کو اللہ عذاب دردناک دنیا اور آخرت میں اور نہیں ان کا روئے زمین پر کوئی حمایتی اور نہ مددگار
69:“ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰه الخ ” اس آیت میں دو قصوں کی طرف اشارہ ہے۔ غزوہ تبوک میں آنحضرت ﷺ نے خطبہ دیا اس میں آپ نے ان منافقین کا ذکر کیا جو جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے آپ نے ان کو رجس اور ناپاک فرمایا۔ یہ سن کر ایک منافق جلاس بن سوید کہنے لگا اگر محمد سچ کہتا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بد تر ہیں۔ یہ بات ایک مخلص مومن عمار بن قیس نے سن لی۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کردیا آپ نے جلاس کو بلا کر پوچھا تو اس نے قسم کھا کر انکار کردیا کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَةَ الْکُفْرِ ” بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی کا قول ہے جو سورة منافقین میں مذکور ہے۔ یعنی “ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلُّ ”۔ دوسرا قصہ :“ وَ ھَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا ” میں مذکور ہے۔ غزوہ تبوک میں منافقین نے آنحضرت ﷺ کے ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ راستہ میں ایک گھاٹی پر بارہ آدمی مقرر کردئیے تاکہ جب آپ وہاں سے گذریں تو اچانک حملہ کر کے آپ کو قتل کردیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبرئیل (علیہ السلام) آپ کو اس پروگرام کی اطلاع دیدی۔ 70:“ وَ مَا نَقَمُوْا الخ ” آخر ان منافقین کو اسلام اور پیغمبر خدا ﷺ پر ان کو کیا ناراضگی ہے کیا ان کو یہ بات ناپسند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے ان کو مالدار بنا دیا ہے۔ حاصل یہ کہ اللہ اور رسول کے تو ان پر احسانات اور انعامات ہی ہیں جن کی موجودگی میں ان کو سر اطاعت و تسلیم خم کردینا چاہئے تھا۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے اس وقت یہ منافقین نہایت تنگدستی کی زندگی بسر کر رہے تھے آپ کی تشریف آوری اور اموال غنیمت کی کثرت سے ان کی زندگی خوشحال ہوگئی۔ جلاس بن سوید مذکور کا ایک قریبی رشتہ دار قتل ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے بارہ ہزار روپیہ خونبہا کے طور پر دلا یا جس سے وہ مالدار ہوگیا۔ “ انھم کانوا حین قدم رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم المدینة فی ضنک من العیش لا یرکبون الخیل ولا یحوزون الغنیمة فاستغنوا بالغنائم وقتل للجلاس مولی فامر رسول اللہ ﷺ بدیته اثنی عشر الفافاً فاستغنی ” (مدارک ج 2 ص 104، قرطبی ج 8 ص 208) ۔ حضرت رسول خدا ﷺ کے منافقین کو غنی کردینے سے یہی مراد ہے یعنی مال غنیمت سے ان کو غنی کردیا اس سے مافوق الاسباب غائبانہ طور پر غنی کرنا مراد نہیں۔ “ کذا فی المدارک و ابن جریر و ابن کثیر ”۔ 71:“ فَاِنْ يَّتُوْبُوْا الخ ” جب یہ آیت نازل ہوئی تو جلاس نے کہا۔ یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے توبہ کی گنجائش دی ہے بیشک میں نے مذکورہ بالا الفاظ کہے تھے اور جھوٹی قسم کھائی تھی اس لیے اب میں اس گناہ اور نفاق سے توبہ و استغفار کرتا ہوں اور صدق دل سے ایمان لاتا ہوں چناچہ آپ نے اس کی توبہ منظور فرما لی اور اس نے بھی آخری دم اخلاص کا ثبوت دیا۔ “ وَ اِنْ يَّتَوَلَّوْا الخ ” یہ نفاق پر قائم رہنے والوں کے لیے دنیوی اور اخروی تخویف ہے۔
Top