Kashf-ur-Rahman - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور جس طرح لوگ بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں اسی طرح اگر لوگوں پر اللہ برائی بھیجنے میں جلدی کیا کرتا تو ان کا مقررہ وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا سو ہم ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا ڈر نہیں ہے ان کے حال پر چوڑے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں حیران سرگرداں رہیں۔
1 1 اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر برائی بھیجنے میں اسی طرح جلدی کیا کرتا جس طرح وہ لوگ بھلائی مانگنے میں جلدی کیا کرتے ہیں تو ان کا مقررہ وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا۔ سو ہم ان لوگوں کو جن کو ہمارے روبرو پیش ہونے کا کوئی کھٹکا اور خوف نہیں ہے ان کی حالت پر چھوڑے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں حیران و سرگرداں رہیں اور بھٹکتے پھریں یعنی انسان کا قاعدہ ہے کہ جو دعا مانگتا ہے خواہ وہ خیر کی ہو یا شر کی۔ چاہتا ہے کہ وہ جلدی پوری ہوجائے اللہ تعالیٰ خیر کی دعا کو اگر مصلحت ہوتی ہے جلد واقع کردیتا ہے لیکن شر کی دعا کا اثر جلدی ظاہر نہیں کرتا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ شر کی دعائوں کو بھی خیر کی دعائوں کی طرح جلدی پورا کرنے لگے تو لوگوں کا قضیہ ہی چک جائے اور سب ہلاک ہوجائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی آدمی چاہتے ہیں کہ نیکی کا بدلہ شتاب ملے یا نیک دعا شتاب برآوے سو اگر حق تعالیٰ شتابی کرے تو اپنی بدی کے وبال سے فرصت نہ پاویں گے مگر دونوں میں تحمل ہے تانیک لوگ تربیت پاویں اور بدلوگ غفلت میں پڑے رہیں۔ 12 ۔ خلاصہ یہ کہ کبھی دونوں میں تاخیر ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کے تمام امور غایت حکمت پر مبنی ہوتے ہیں خوہ وہ تاخیر ہو یا تعجیل۔
Top