Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 104
وَ مَا نُؤَخِّرُهٗۤ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍؕ
وَ : اور مَا نُؤَخِّرُهٗٓ : ہم نہیں ہٹاتے پیچھے اِلَّا : مگر لِاَجَلٍ : ایک مدت کے لیے مَّعْدُوْدٍ : گنی ہوئی (مقررہ)
اور ہم اسکے لانے میں ایک وقت معین تک تاخیر کر رہے ہیں۔
104۔ 105۔ اس سے پہلے کی آیت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ قیامت کے دن اول سے آخر تک سب لوگ جمع ہوں گے اس لئے فرمایا کہ قیامت کے آنے میں دیر اس لئے ہو رہی ہے کہ خدا نے یہ بات اس لئے ٹھہرائی ہے کہ جب تک دنیا کے تمام پیدا ہونے والے لوگ پیدا نہ ہولیں گے۔ اور ان کے پیدا ہونے کے لئے جو مدت مقرر ہے وہ پوری نہ ہوجاوے گی اس وقت تک قیامت نہ آوے گی اور اس مدت کی خبر خدا ہی کو ہے سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا جب یہ مدت دنیا کی ختم ہوجاوے گی تو وہ قیامت کا دن قائم ہوگا اور ہر شخص کو اس کے عمل کے موافق جزا و سزا ملے گی پھر اس کے بعد فرمایا کہ جب وہ دن آئے گا تو کسی کی کیا مجال ہے جو میرا حکم خدا کے ایک بات بھی زبان سے نکال سکے اللہ پاک کا جس کو حکم ہوگا وہ شفاعت کے لئے کھڑا ہوگا پھر فرمایا کہ قیامت کے دن جتنے لوگ ہوں گے ان میں سے بعضے بدبخت ہوں گے جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور بعضے نیک بخت ہوں گے جن کے لئے جنت بنائی گئی ہے حضرت عمر ؓ کہتے ہیں جب یہ آیت اتری فمنہم شقی و سعید تو میں نے حضرت ﷺ سے عرض کیا کہ جب یہ بات مقرر ہوچکی کہ بعض آدمی بد بخت ہیں اور بعض نیک بخت تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے جیسا کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا وہ ہو کے رہے گا آپ نے فرمایا جس کے واسطے جس بات کو قلم جاری ہوچکا ہے وہی بات اس پر آسان بھی ہوتی ہے جو شخص جس کام کے لئے پیدا ہوا ہے وہی کام وہ آسانی سے کرتا ہے اس لئے تم کو چاہیے کہ عمل کئے جاؤ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا 1 ؎ ہے۔ منذری نے اس حدیث کی سند پر اگرچہ اعتراض کیا 2 ؎ ہے کہ مسلم بن یسار راوی کو حضرت عمر ؓ سے ملنے کا موقع نہیں ملا اس لئے اس حدیث کی سند پوری نہیں ہے لیکن مسند امام احمد مستدرک حاکم اور امام مالک کی سند میں مسلم بن یسار نہیں ہے اس لئے یہ حدیث معتبر ہے بعضے مفسروں نے یہاں یہ بات بیان کی ہے کہ جتنے لوگ قیامت میں ہوں گے ان کی دو ہی قسمیں اللہ پاک نے بیان فرمائی ہیں نیک بخت اہل جنت کو اور بد بخت اہل دوزخ کو مگر ان دو کے علاوہ ایک قسم اور بھی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک عمل اور برے عمل دونوں برابر ہیں یا وہ لوگ جن کے نہ نیک عمل اور برے عمل دونوں برابر ہیں یا وہ لوگ جن کے نہ نیک عمل ہیں نہ برے عمل ہیں جیسے دیوانے اور بچے تو یہ لوگ خدا کی مشیت میں ہیں ان کے حق میں وہ جو چاہے گا حکم دے گا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نیک عمل اور بد عمل برابر ہیں وہ لوگ اور دیوانے لوگ اور بچے صحیح حدیثوں کے موافق جنت میں جاویں گے اس لئے پہلی دو قسموں میں یہ لوگ بھی داخل ہیں۔ 1 ؎ جامع ترمذی ص 138 ج 2 تفسیر سورة ہود و تفسیر فتح الیان ص 463 ج و تفسیر ابن کثیر 459 ج 2۔ 2 ؎ لیکن مؤلف (رح) کی کتاب تیفتح الرداۃ (ص 25 جاول) سے معلوم ہوتا ہے کہ امام منذری (رح) کا اعتراض جس روایت پر ہے وہ آیت کریمہ واذ اخذ ربک الآیۃ کی تفسیر میں ہے۔ زیر تفسیر آیت والی رعایت اس سے الگ ہے واللہ اعلم (ع۔ ر) ۔
Top