Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 21
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
لَوْ اَنْزَلْنَا : اگر ہم نازل کرتے هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن عَلٰي جَبَلٍ : پہاڑ پر لَّرَاَيْتَهٗ : تو تم دیکھتے اس کو خَاشِعًا : دبا ہوا مُّتَصَدِّعًا : ٹکڑے ٹکڑے ہوا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے خوف سے وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کیلئے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کریں
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتاردیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت) پر غور کریں۔
یہ ایک تمثیل ہے لیکن ایک حقیقت کو بطول مثال پیش کیا گیا ہے۔ یہ قرآن ایک عظیم وزن رکھتا ہے۔ اس کے اندر بہت بڑی قوت ہے ، بےپناہ اثر کا مالک ہے ، اور اس کے مقابلے میں کوئی چیز ثابت قدم نہیں رہ سکتی۔ جس پر اس کا وزن پڑے تو متزلزل ہوجاتا ہے ، پاش پاش ہوجاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے جب پہلی مرتبہ اسے پڑھا تو وہ پاش پاش ہوگئے اور جب وہ ایک رات سننے والے سے سن رہے تھے۔ والطور ........................ ربک لواقع (7) (25 : 1 تا 7) ” قسم ہے طور کی اور ایک ایسی کھلی کتاب کی جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے اور آباد گھر کی ، اور اونچی چھت کی ، اور موجزن سمندر کی ، کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں “۔ تو حضرت عمر ؓ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد وہ گھر کو واپس آئے اور اس قدر غم زدہ ہوگئے کہ لوگ ایک ماہ تک ان کی عبادت کرتے رہے۔ بعض ایسے لمحات آتے ہیں کہ انسان کا دل قرآنی معارف کے لئے کھل جاتا ہے تو قرآن کا اثر اس قدر تیز ہوتا ہے کہ انسان ہلامارا جاتا ہے اور اس پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور انسان کے اندر اس قدر تغیرات اور تبدیلیاں آجاتی ہیں جس طرح مقناطیس اور بجلی کا اثر لوہے اور جسم پر ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی شدید اثر ہوتا ہے۔ اللہ خالق الجبال بھی ہے اور منزل القرآن بھی۔ اللہ کا فرمان ہے۔ لو انزلنا ................ خشیة اللہ (95 : 12) ” اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتاردیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے “۔ جن لوگوں نے قرآن کریم کی اس نوعیت کے اثرات کو اپنے جسم میں محسوس کیا ہے وہی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں لیکن ان کا ذوق اور ان کا احساس الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس سورت کے آخر میں خدائے رحمن ورحیم کی تعریف اور تسبیح آتی ہے ، جب انسان کی ذات پر قرآن کریم کا کسی قدر اثر ہوجاتا ہے تو وہ تسبیح کرنے لگتا ہے اور یہ اسمائے حسنیٰ ایسے ہیں جن کے آثار کائنات میں واضح نظر آتے ہیں کیونکہ اللہ کے اسمائے صفات کائنات کے مظاہر اور اس کی حرکت میں نظر آتے ہیں :
Top