Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان برائی کی دعا بھی اسی طرح مانگتا ہے جس طرح بھلائی کی دعا کیا کرت ا ہے اور انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔
- 1 1 اور انسان شر کی اور برائی کی دعا بھی اسی طرح کرتا ہے جس طرح خیر کی اور بھلائی کی دعا کرتا ہے اور انسان بہت جلد باز واقع ہے۔ یعنی بھلائی کی دعا میں جس طرح قبولیت دعا کا تقاضا کرتا ہے اسی طرح شر کی دعا کو بھی چاہتا ہے جلد قبول ہوجائے اگر تاخیر ہوجائے تو بگڑتا اور بدگمانی کرتا ہے۔ شر کی دعا کا مطلب یہ ہے جیسے کفار کا عذاب مانگنا یا جیسے حوادثات سے تنگ آ کر موت مانگنا یا نادانستہ طور پر کسی دعا پر اصرار کرنا اور اس کی قبولیت کا تقاضا کرنا مگر حضرت حق کے علم میں اس دعا کی قبولیت میں جو نقصان اور خرابیاں پیدا ہونیوالی ہیں وہ موجود ہیں اور وہ ان برائیوں کو جانتا ہے لیکن جاہل انسان مانگے جاتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ میری دعا قبول فرما۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی گھبراتا ہے کہ میری دعا شتاب کیوں قبول نہیں ہوتی اور اس کی دعا بعض اس کے حق میں بری ہے اگر قبول ہو تو انسان خراب ہو سو ہر طرح اللہ بہتر دانا ہے چاہے کہ اس کی رضا پر شاکر رہے۔
Top