Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور جس شخص کے قتل کرنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہ کرو مگر ہاں کسی حق شرعی کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس مقتول کے وارث کو قصاص کا اختیار دیا ہے پھر وارث کو خون کا بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کو مدد دی گئی ہے
-33 اور جس شخص کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہ کرو مگر ہاں کسی شرعی حق کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کردیا جائے تو ہم نے اس مقتول کے وارث کو قصاص لینے اور بدلہ لینے کا اختیار دیا ہے سو بدلہ لینے والے کو قتل کے بارے میں حد شرع سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے اور آگے نہیں نکلنا چاہئے کیونکہ وہ قصاص حاصل کرنے والا وارث مدد دیا گیا ہے اور اس کی طرف داری کی گئی ہے۔ بےگناہ کو قتل کرنے کی مذمت فرمائی اور بنی نوع انسان میں سے کسی انسان کو بلا وجہ قتل کرنے کی ممانعت فرمائی مگر حق پر قتل کرنا درست ہے اگر حق شرعی کی بنا پر اس کا قتل واجب یا مباح ہو مثلاً اس نے کسی کو بدون حق شرعی کے قتل کردیا ہو یا محصن ہو کر زنا کا ارتکاب کیا ہو یا جماعت اسلام سے خاج ہوگیا ہو تو ایسا شخص ” حرم اللہ “ میں داخل نہیں۔ پھر فرمایا اگر کوئی شخص ناحق قتل کردیا جائے تو حضرت حق کی جانب سے ورثائے مقتول کو قصاص لینے کا اختیار دیا ہے کہ وہ امیر یا اس کے نائب سے کہہ کر اپنا انتقام قاتل سے لے لیں لیکن بدلہ لیتے وقت ورثاء کو حد سے تجاوز نہ کرنا چاہئے۔ تجاوز یہی کہ کسی بےگناہ کو پھنسانے کی کوشش یا قتل کیا ہو ایک نے اور نام لے دیں ایک سے زائد کا یا قاتل کے ہاتھ پائوں کاٹنے لگیں اور قتل سے پہلے اور اذیتیں دینے لگیں یہ سب اسراف فی القتل ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکام کو متنبہ کیا ہو کہ صرف قاتل سے انتقا م دلوائیں اور کسی قسم کی زیادتی نہ کریں۔ بہرحال ! اگر قاتل کا وارث حد شرع سے تجاوز نہ کرے تو وہ حمایت اور طرف داری کا مستحق ہے اور اگر زیادتی کرے گا تو پھر دوسرا فریق مدد اور طرفداری کے قابل ہوجائے گا۔ اس لئے جو شرعی مدد حاصل ہوتی ہے اور جو منصوریت ملی ہے اس کو زیادتی کر کے مقتول کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ہر کسی کو لازم ہے کہ خون کا بدلہ دلانے میں مدد کرے نہ الٹا قاتل کی حمایت کرے اور وارث کو بھی چاہئے کہ ایک کے بدلے دو نہ مارے یا قاتل ہاتھ نہ لگا تو اس کے بیٹے بھائی کو نہ مارے۔ 2 ؎
Top