Kashf-ur-Rahman - Al-Kahf : 101
اِ۟لَّذِیْنَ كَانَتْ اَعْیُنُهُمْ فِیْ غِطَآءٍ عَنْ ذِكْرِیْ وَ كَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًا۠   ۧ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَانَتْ : تھیں اَعْيُنُهُمْ : ان کی آنکھیں فِيْ غِطَآءٍ : پردہ میں عَنْ : سے ذِكْرِيْ : میرا ذکر وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : نہ طاقت رکھتے سَمْعًا : سننا
وہ کافر جن کی آنکھیں ہمارے ذکر سے پردہ غفلت میں تھیں اور وہ ہمارے کام کو سن بھی نہ سکتے تھے ۔
- 10 1 وہ کافر جن کی آنکھیں ہمارے ذکر یعنی قرآن کریم سے پر دئہ غفلت میں تھیں اور وہ ہمارے کلا مکو سن بھی نہ سکتے تھے۔ یعنی آنکھوں پر غفلت کے پردے اور کانوں میں ثقل پھر ایمان کس طرح نصیب ہوتا ۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اپنی آنکھ نہ تھی کہ قدرتیں دیکھ کر یقین لا دیں اور کسی کی بات نہ سنتے ضد سے کہ سمجھائے سمجھیں 12 ذوالقرنین بادشاہ کے سلسلے میں متقدمین مفسرین کے باہمی اقوال مختلف ہیں۔ حضرات متاخرین نے اپنی تحقیق سے اس میں کچھ اور اضافہ کیا لیکن مسئلہ کو اور بھی الجھا دیا اور ہمارے زمانہ کے لوگوں نے تو یا جوج ماجوج اور سد اور ذوالقرنین کے واقعات میں ایسی ایسی تاویلات بعیدہ سے کام لیا کہ قرآن وحدیث کا مفہوم ہی مسخ کردیا اس بارے میں تین باتیں زیادہ موضوع بحث رہیں۔ اول یہ ذوالقرنین کو ن ہے دس کہاں ہے اور یاجوج ماجوج کون ہیں اور وہ آج کل کہاں ہیں ہم اس بارے میں ان اہل علم کی تحقیق کا ذکر کرتے ہیں جو اور حضرات سے راجح ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی تحقیق احادیث صحیحہ اور قرآن کریم سے زیادہ قریب ہے۔ سکندر ذوالقرنین کے متعلق عام طور پر اہل تاریخ کا خیال ہے کہ یہ سکندر وہ ہے کہ جس کا پایہ تخت یونان تھا اور یہی اسکندریہ کا بانی تھا یہ سکندر حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً تین سو برس پہلے ہوا تھا کسی نے کہا وہ ایک رومی جوان تھا کسی نے کہا اس کا نام عبداللہ بن ضحاک تھا لیکن سہیل (رح) نے فرمایا کہ دو ذوالقرنین ہوئے ایک وہ جو یونانی ہے اور ایک وہ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوا ہے اور ملت ابراہیمی کا پیرو تھا اور حضرت ابراہیم پر ایمان لایا تھا۔ قرآن کریم میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے یہ وہی ذوالقرنین ہے۔ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ البتہ امام رازی نے پہلے قول کو اختیار کیا ہے۔ (واللہ اعلم) یہ ذوالقرنین نبی ہو یا نہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ سکندر ایک صالح۔ دیندار مومن اور منصف مزاج بادشاہ تھا اور اس کے وزیر حضرت خضر تھے اور یونانی سکندر کافر اور اس کا وزیر ارسطو تھا اور کچھ تعجب نہیں کہ وہ ابراہیمی ذوالقرنین اولیاء اللہ میں سے ہو رہی ذوالقرنین کی سد اور دیوار جس کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے اس کے متعلق قرآن وحدیث سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔- 1 وہ دیوار لوہوے کی ہے۔ -2 اس دیوار کے دونوں سرے دو طرفہ پہاڑ سے ملے ہوئے ہیں جیسا کہ ہم نے کہا تھا کہ وہ ایک پہاڑی ذرہ اور گھاٹی ہے جو اس دیوار سے بند کردی گئی ہے۔-3 اس کا بنانے والا کوئی ذی مرتبت بادشاہ ہے۔ -4 اس دیوار کے اس پارجو یاجوج ماجوج ہیں وہ ابھی تک نہیں نکلے اور ظاہر نہیں ہوئے۔-5 وہ لوگ ہر روز اس کو چھیلتے رہتے ہیں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے صرف حضور ﷺ کے زمانے میں ایک سوراخ اس میں ہوگیا تھا جس قدر وہ چھیلتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ رات کو پھر اسی طرح کردی جاتی ہے۔ قریب قیامت میں شام کو انشاء اللہ کہہ کر جائیں گے اور وہ رات کو درست نہ ہوگی اور دوسرے روز اس کو توڑ کر نکل آئیں گے۔-6 وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں نکلیں گے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور طاقت میں بھی عام انسانوں سے بہت زیادہ ہوں گے۔-7 وہ دفعتاً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے مرجائیں گے اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ہمراہی طور پر پناہ گزیں ہوں گے اور دوسرے لوگ اپنے اپنے مکانوں میں بند ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ باوجود ترقی کے اور جغرافیائی تحقیق کے لوگ اس کا پتہ نہیں لگا سکے اور وہ ابھی تک پردہ اخفا میں ہے جو کچھ قرآن کریم نے فرمایا ہے اور جو کچھ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اس کی تصدیق کرنی اور اس پر ایمان رکھنا چاہئے۔
Top