Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور یہ لوگ اس علم کے پیچھے ہو لئے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا لیکن شیاطین نے کفر کا ارتکاب کیا ان شیاطین کی یہ حالت تھی کہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور اس علم کے بھی پیچھے ہوئے جو ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں پر بابل میں نازل کیا گیا تھا اور وہ دونوں فرشتے کسی کو نہیں سکھاتے تھے جب تک سیکھنے والے سے یہ نہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک فتنہ کی چیز ہیں تو کافر مت ہو اس پر بھی لوگ ان دونوں سے اس قسم کا سحر سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ سے کسی مرد اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق ڈالو دیں حالانکہ وہ لوگ اس سحر کے ذریعہ کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ضرر نہیں پہنچا سکتے اور لوگ ان دونوں فرشتوں سے ایسی باتیں سیکھ لیتے تھے جو ان کو نقصان دہ تھیں اور ان کے لئے نافع نہیں تھیں اور اتنی بات تو یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ جس نے جادو کو اختیار کیا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور بہت ہی بری ہے وہ چیز یعنی جادو جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو فروخت کیا کاش وہ سمجھ سے کام لیتے1
1 ان یہود نے کتاب الٰہی کے … احکام کو تو پس پشت ڈال دیا اور اس کی بجائے اس چیز کے پیچھے ہو لئے اور اس جادو کے علم کی اتباع اور پیروی اختیار کی جس کو حضرت سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور لوگوں میں اس علم کا چرچا کیا کرتے تھے اور حضرت سلیمان کی طرف جادو کی نسبت کرتے تھے حالانکہ حضرت سلیمان نے کفر نہیں کیا البتہ ان شیاطین کی یہ حالت تھی کہ وہ خود بھی جادو کرتے تھے اور لوگوں کو بھی جادو سکھایا کرتے تھے اور یہی وہ علم سحر ہے جس کا اتباع یہود کر رہے ہیں۔ نیز ان یہود نے اس سحر کی اتباع اختیار کی جو بابل میں ان دونوں فرشتوں پر ایک خاص حکمت کے ماتحت نازل کیا گیا تھا جن کا نام ہاروت اور ماروت تھا اور وہ دونوں فرشتے کسی شخص کو اس وقت سحر کا علم نہیں بتاتے تھے جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیتے ہوں کہ اس بات کو خوب سمجھ لے کہ ہم خدا کی طرف سے مخلوق کے لئے ایک فتنہ اور آزمائش ہیں لہٰذا تو کفر کی بات نہ سیکھ … اور اس کا معتقد ہو کر کافر نہ ہو اس پر بھی کچھ لوگ ان دونوں فرشتوں سے ایسی باتیں سیکھ لیتے تھے جن کے ذریعہ سے کسی مرد اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق اور جدائی ڈلوا دیں حالانکہ یہ یقینی امر ہے کہ وہ جادوگر اس سحر کے ذریعہ مشیت الٰہی اور اذن خداوندی کے بغیر کسی کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور علم سحر سے سحر کے حصول سے بس ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو ان کے لئے ضرر رساں ہیں اور ان کے لئے کسی خاص درجہ میں نافع نہیں اور یہ یہودی بھی یقینا اس بات سے واقف ہیں کہ جس نے سحر اختیار کیا اور کتاب الٰہی کے بدلے میں جادو کو خریدا تو ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں رہا اور بیشک وہ چیز بہت بری ہے جس پر وہ اپنی جانوں کو فروخت کر رہے ہیں اور اپنے ایمانوں کو برباد کر رہے ہیں کاش وہ اس بات کو بھی جانتے کہ ان باتوں کا نتیجہ ابدی عذاب ہوگا اور کاش ان کو اتنی سمجھ ہوتی کہ وہ علم سے نفع حاصل کرسکتے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ ان یہود کا یہ حال ہے کہ بجائے کتاب الٰہی کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے یہ اس جادو کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں۔ جو حضرت سلیمان کے عہد میں شیاطین چپکے چپکے لوگوں کو سناتے تھے کیونکہ حضرت سلیمان کے عہد میں شیاطین اور انسان ملے جلے رہتے تھے یہ شیاطین علم سحر انسانوں کو سکھاتے اور اس کی بڑی تعریف کرتے اور یہ کہتے کہ حضرت سلیمان اسی سحر کی بدولت آج حکمران بنے ہوئے ہیں اور یہ علم ان ہی کا ہے تم بھی سیکھ لو یہ کہہ کر لوگوں کو سکھایا کتے اور اس پر عمل کرنی کی ترغیب دیا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی اس علم سے برأت ظاہر فرمائی کہ جو چیز با اعتبار اعتقاد کے کفر ہو اور عمل کے اعتبار سے ناجائز اور حرام ہو اس کو سلیمان کیوں اختیار کرتے بلکہ شیاطین ہی لوگوں کو سکھاتے اور بتاتے تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہود نے نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہا ہو کہ یہ پیغمبر کس طرح سچا ہوسکتا ہے یہ تو سلیمان کو نبی بناتا ہے حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) تو ایک جادوگر تھا جو اپنے جادو کے زور سے ہوا پر اڑا پھرتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا کہ شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کی جانب نسبت کرتے تھے حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) کا دامن اس سے بالکل پاک ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیاطین نے جادو کی کتابیں لکھ کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی کے نیچے زمین میں دفن کردی تھیں۔ پھر حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان کتابوں کو نکال کر یہ مشہور کردیا کہ سلیمان (علیہ السلام) جادو کے بہت بڑے ماہر تھے۔ دیکھو یہ سب ان ہی کی کتابیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو رد فرما دیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا اس علم سے کوئی واسطہ نہ تھا بلکہ یہ تمام کارروائی شیاطین کی تھی اور یہ یہود اس سحر کا بھی اتباع کرتے ہیں جو بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ ہاروت اور ماروت کے متعلق مفسرین نے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں اور زہرہ ستارہ کا قصہ بھی نقل کیا ہے ان روایتوں کی امام رازی نے درایتہ اور ابن کثیر نے روایتہ تضعیف اور تنفیص کی ہے اور بعض محدثین نے ان کی توثیق فرمائی ہے لیکن قرآن کا جہاں تک تعلق ہے اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جادو کے طریقے رائج تھے ایک وہ جو عہد سلیمانی میں شیطان سکھایا کرتے تھے اور دوسرے وہ جو خاص حکمت و مصلحت کے ماتحت بابل میں دو فرشتوں کو دے کر بھیجا گیا تھا۔ وہ فرشتے بھی سحر کا علم سکھاتے تھے۔ لیکن جب کوئی ان کے پاس سیکھنے جاتا تو پہلے اس کو یہ فہمائش کردیا کرتے تھے کہ ہم بطور ایک آزمائش کے خدا کی طرف سے آئے ہیں۔ تو ایسا علم نہ سیکھ جس کی تاثیر پر اعتقاد رکھنا کفر ہے اور اس کے عمل کی بھی اکثر صورتیں کفر ہیں۔ اگر کوئی اصرار کرتا تو وہ اس کو سکھا دیتے اور لوگ عام طریقے سے وہ باتیں سیکھ لیتے جن سے بیوی اور سا کے شوہر کے مابین جھگڑا کرا دیں اور دونوں میں جدائی ڈلوا دیں۔ اگر بدون مشیت الٰہی اور اس کے ارادے کے وہ جادوگر کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور جادو سیکھنے والے ان فرشتوں سے ایسی باتیں حاصل کیا کرتے تھے جو ان کو سرا سر ضرر رساں ہوتی تھیں اور ان کے لئے کوئی خاص نافع نہ ہوتی تھیں۔ حضرت حق تعالیٰ نے علم سحر کا ذکر کرنے کے بعد پھر یہود کو تنبیہہ فرمائی اور یہ فرمایا کہ یہ لوگ بھی اس کی خرابیوں کو جانتے ہیں اور ان کو یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص اس کام کو اختیار کرتا ہے۔ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے اور چونکہ یہ اپنے علم پر عمل نہیں کرتے اس لئے ان کا جاننا نہ جاننے کے برابر ہے۔ اس لئے آخر میں فرمایا لو کانو یعلمون جیسا کہ ہم نے ترجمہ کے خلاصہ میں عرض کیا ہے جن روایات کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے زمانے میں جب بنی آدم کے گناہ بکثرت آسمان پر چڑھنے لگے تو بعض فرشتوں نے اس پر قیل و قال شروع کی اور بنی آدم کا ذکر نفرت و حقارت سے کرنے لگے۔ اس پر حق تعالیٰ نے ان کو خطاب فرمایا کہ چونکہ بنی آدم میں قوت غضب اور قوت شہوت وغیرہ ودیعت کی گئی ہے اس لئے ان سے گناہ سر زد ہوتے ہیں۔ اگر تم میں بھی اس قسم کی قوتیں رکھ دی جائیں اور تم کو زمین پر بھیج دیا جائے تو تم بھی اس قسم کی معاصی میں مبتلا ہو جائو۔ فرشتوں نے عرض کیا اے پروردگار ہم تو تیری نافرمانی کسی طرح نہیں کرسکتے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے دو فرشتوں کو منتخب کرو تاکہ میں ان مذکورہ خواہشات سے متصف کر کے ان کو زمین میں بھیجوں۔ چناچہ فرشتوں نے ہاروت اور ماروت کو اپنے میں سے منتخب کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو قوائے نفسانیہ سے متصف فرما کر بابل بھیج دیا اور ارشاد فرمایا کہ تم انسانوں کو زنا اور شراب اور قتل وغیرہ معاصی سے روکو اور لوگوں میں جو جھگڑا ہو اس کا فیصلہ کیا کرو اور شام کے وقت اس اسم اعظم کو پڑھ کر آسمان پر آ جایا کرو اور صبح کو پھر زمین پر چلے جایا کرو۔ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو بابل کے اطراف میں ان کی بڑی شہرت ہوگئی کہ وہ شخص بابل میں ایسے آئے ہیں جو نہایت انصاف کے ساتھ بلا رو رعایت لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہیں اور کسی سے رشوت وغیرہ نہیں لیتے۔ چناچہ اہل مقدمات فصل خصومات کی غرض سے ان کے پاس آنے لگے۔ ایک دن اسی فصل خصومات کے سلسلے میں ایک عورت بھی ان کے پاس آئی جو بہت خوبصورت تھی اور اپنے زمانے کی عورتوں میں سب سے زیادہ حسین تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ وہ عورت فارس کی تھی اور اس کا نام بےرخت تھا۔ وہ بہت عمدہ لباس پہن کر آئی اور اپنے خاوند کے خلاف اس نے اپنے حق کا مطالبہ کیا اور اصل میں اس کو اسم اعظم کا شوق تھا۔ وہ اسی کی تلاش میں آئی تھی۔ چناچہ ہاروت اور ماروت اس حسینہ کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوگئے اور اس سے برے کام کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے جواب دیا کہ تم اور مذہب پر ہو۔ میں اور مذہب پر ہوں پھر میرا خاوند بڑا غیرت دار آدمی ہے۔ اس کو معلوم ہوگا تو وہ مجھے قتل کر ڈالے گا۔ تم پہلے میرے بت کو سجدہ کرو۔ پھر میرے خاوند کو قتل کرو۔ اس کے بعد تمہاری بات پوری ہوسکتی ہے۔ ان دونوں نے کہا معاذ اللہ شرک اور قتل یہ ہم سے کس طرح ہوسکتا ہے۔ یہ سن کر وہ عورت چلی گئی لیکن ان دونوں پر اس کے عشق کا غلبہ ہوگیا اور جب یہ اس کی محبت میں پریشان ہوگئے تو انہوں نے اس کو پیغام بھیجا کہ ہم دونوں تیرے ہاں مہمان ہونا چاہتے ہیں۔ اس نے بخوشی منظوری دے دی۔ جب یہ اس کے ہاں پہنچے تو اس نے اپنے مکان کو خوب آراستہ کیا اور خود بھی خوب بنی سنوری اور دستر خوان کو پرتکلف کھانوں سے سجایا اور دستور کے موافق شراب بھی دستر خوان پر رکھی۔ جب یہ وہاں پہونچے تو اس نے ان سے باتیں شروع کیں اور اس نے کہا تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہو بشرطیکہ چار باتوں میں سے کسی ایک بات کو منظور کرو یا تو میرے صنم کو سجدہ کردیا میرے خاوند کو قتل کردیا مجھے وہ اسم اعظم بتائو جس کو پڑھ کر تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو یا شراب کا ایک جام پی لو۔ یہ سن کر ان دونوں نے مشورہ کیا اور دوسرے گناہوں کو سخت سمجھ کر شراب پر رضا مند ہوگئے چناچہ شراب کا ایک جام پی لیا۔ شراب کا نشہ ہونا تھا کہ اس کو اسم اعظم بھی بتادیا اور اس کے بت کو بھی سجدہ کیا اور اس کے خاوند کو بھی قتل کردیا۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ وہ عورت اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر اڑ گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی روح زہرہ نامی ستارے سے ملا دی۔ جب ان فرشتوں ک نشہ اترا تو ان کو اسم اعظم یاد نہ رہا تھا۔ اب یہ بہت پچھتائے اور بہت نادم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات سے فرشتوں کو آگاہ کیا اور یہ فرمایا کہ یہ فرشتے جو عالم شہود کے رہنے والے تھے جب قوائے نفسانیہ پر قابو نہ پا سکے اور ہر قسم کے معاصی میں مبتلا ہوگئے تو بنی آدم نے تو اس عالم کو دیکھا بھی نہیں اور ان کو تو شہود نصیب بھی نہیں ہوا اگر وہ معاصی میں مبتلا ہوگئے تو بنی آدم نے تو اس عالم کو دیکھا بھی نہیں اور ان کو تو شہود نصیب بھی نہیں ہوا اگر وہ معاصی میں مبتلا ہوئے تو ان پر تم ناراض کیوں ہوتے ہو اور کیوں ان پر نفرت کرتے ہو۔ ملائکہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اہل زمین کے لئے استغفار شروع کردی۔ ان دونوں فرشتوں کو جب توبہ کی کوئی شکل سمجھ میں نہیں آئی تو ادریس (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے تاکہ ہماری توبہ قبول ہو سکے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا۔ میں جمعہ کے روز تمہارے لئے دعا کروں گا۔ چناچہ جمعہ کے روز حضرت ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا۔ میں نے تمہارے لئے دعا کی تھی مگر آج قبول نہیں ہوئی۔ آئندہ جمعہ تک انتظار کرو جب دوسرا جمعہ ہوا تو حضرت ادریس (علیہ السلام) نے کہا حق تعالیٰ تم کو اختیار دیتا ہے چاہے آخرت کا عذاب اختیار کرلو چاہے دنیا کا عذاب قبول کرلو۔ چنانچہ فرشتوں نے دنیا کے عذاب کو ہلکا سمجھ کر اسے اختیار کرلیا۔ اور اب وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک آتشین کنوئیں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور ہر روز فرشتے ان کو باری باریآ کر کوڑے لگاتے ہیں اور پیاس کے مارے ان کی زبانیں لٹکی ہوئی ہیں یہ وہ روایت ہے جس کو بیہقی اور مسند امام احمد نے نقل کیا ہے ۔ روایت کی صحت و عدم صحت سے ہمیں بحث کرنی مقصود نہیں ہے جس قدر مفہوم قرآن عزیز کی آیت سے ظاہر ہوتا تھ وہ ہم نے عرض کردیا ہے یہ بھیہو سکتا ہے کہ ہاروت و ماروت فرشتے نہ ہوں بلکہ انسانوں میں سے دو آدمیوں کا نام ہو اور ان کے زہدو اتقا کی وجہ سے ان کو فرشتہ فرمایا ہو اور ان پر علم سحر کی حقیقت و کیفیت الہام فرما دی گئی ہو اور اس وقت کے لوگ جو عام طور پر سحر اور جادو ٹونے کے شغل میں مبتلا تھے حتی کہ انبیاء (علیہ السلام) کے معجزات کو بھی جادو سمجھتے تھے اس کو صاف کرنی کی غرض سے دو شخصوں کو اسکام کے لئے مقرر کیا ہو تاکہ وہ سحر اور معجزے کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کردیں اور مادہ فرشتے ہی ہوں ا ن کو یہ کام سپرد کیا گیا ہو اور انبیاء (علیہم السلام) کے تقدس اور برتری کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے یہ کام لینا مناسب نہ ہو۔ اس لئے فرشتوں کے ذریعہ اس کی تفصیلات سے آگاہ فرمایا ہو۔ چنانچہ فرشتوں کا یہ کہنا کہ انما نحن فتنۃ فلاتکفر اس سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد خاص تھ کہ لوگوں کو سحر کی تعلیم و تفصیل کے ساتھ اس کی خرابی اور اس کے نقصانات سے بھی آگاہ کردیں اور یہ بتادیں کہ ہم لوگوں کے لئے ایک امتحان ہیں خدا تعالیٰ ایک ہری چیز کی برائی کو ظاہر کر کے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون اس کو سمجھ کر اور سیکھ کر اس سے بچتا ہے اور کون مبتلا ہوتا ہے۔ اس تقریر سے وہ فرق بھی سمجھ میں آگیا ہوگا جو شیاطین اور ہاروت اور ماروت کے طریقہ تعلیم میں تھا ۔ شیاطین تو تعلیم بھی دیتے تھے اور اس پر عمل کرنی کی ترغیب بھی دیتے تھے اور فرشتے ایک شئے کی حقیقت سے تو آگاہ کرتے تھے مگر اس سے بچنے اور پرہیز کرنی کی ترغیب دیتے تھے اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص ایک کافر سے فلسفہ اور علوم عقلیہ حاصل کرے اور وہ کافر استاذ اس طالبعلم کو اس طرح تعلیم دے کہ خود اس کو کافر بنا دے اور گمراہ کر دے اور ایک یہی علوم عقلیہ کسی دین دار عالم سے پڑھے کہ اس کو فلسفہ کا علم بھی حاصل ہوجائے او وہ صرف حق کی حمایت اور باطل کے رد میں اس کو استعمال کرے اور وہ اس علم سے کسی کو گمراہ نہ کرے اور یہ استاد پڑھاتے وقت اس طالبعلم سے یہ عہد بھی لے لے کہ دیکھو یہ علم بڑا خطرناک ہے کسی ملحد اور بےدین سے مقابلہ ہوجائے تو ضرورت کے طور پر اس کو استعمال کرلینا اور یہ نہ کرنا کہ دین حق کی مخالفت میں اس کو استعمال کرو۔ یہی وہ فرق ہے جو شیاطین کے اور فرشتوں کے سحر سکھانے اور سحر کی تعلیم دینے میں تھا ایسا جادو جس میں خبیث ارواح یا کواکب سے استعانت حاصل کی جائے یا الفاظ کفریہ کا استعمال کیا جائے یا غیر اللہ کی عبادت اور شیاطین سے امداد طلب کی جائے خواہ اس سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے یا نفع پہنچایا جائے تو یہ حرام و کفر ہے اور اگر کفر یہ الفاظ نہ ہوں اور ان سے بغیر شرعی اجازت کے کسی کو نقصان پہنچایا جائے یا ہلاک کیا جائے یا کوئی ناجائز غرض حاصل کی جائے تو یہ فسق ہے اور اگر ایسے کلمات ہوں کہ جن کا مفہوم اور ان کے معنی سمجھ میں نہ آتے ہوں تو اس کے استعمال سے بچنا واجب ہے باقی کسی جائز عمل سے ارواح طیبہ یا ملائکہ کو متوجہ کرنا یا کس مریض کے گلے میں لکھ کر ڈال دینا یا پانی میں گھول کر پلانا یا پھونک کر دم کرلینا یہ سب امور سباح ہیں۔ باقی سحر کے اقسام اور تفصیلات معلوم کرنے کے لئے تفسیر عزیزی کو ملاحظہ کیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن کا مفہوم ہاروت و ماروت اور زہرہ کے اس قصے پر موقوف نہیں ہے جس کو ہم نے نقل کیا ہے ۔ اگر اس روایت کو صحیح نہ مانا جائے جیسا کہ ابن کثیر نے کہا ہے تب بھی قرآن کا مطلب اور مفہوم اپنی جگہ قائم ہے۔ سحر کے اثرات بھی دوسری مہلک یا غیر مہلک اشیاء کے اثرات کی طرح حضرت حق تعالیٰ کے حکم اور ان کی مشیت پر موقوف ہیں بالذات کوئی چیز نہیں ہیں اور یہ بات بھی نہیں ہے کہ سحر کا اثر صرف تفریق زوجین کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ بعض نے سمجھا ہے بلکہ اس کے اثرات بہت وسیع ہیں جیسا کہ روزمرہ کے حالات اس پر شاہد ہیں۔ (تسہیل)
Top