Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 117
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
بَدِیْعُ : پیدا کرنے والا السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاِذَا : اور جب قَضٰى : وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام کا فَاِنَّمَا : تو یہی يَقُوْلُ : کہتا ہے لَهٗ كُنْ : اسے ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
ایجاد کرنیوالا ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جب کسی کام کو پورا کرنا چاہتا ہے تو بس اس کو اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہوجا سو وہ ہوجاتا ہے3
3 اور لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے میں اسکی جملہ عیوب سے پاکی بیان کرتا ہوں اس کو صاحب اولاد کہنا کس قدر لغو اور مہمل بات ہے بلکہ جو مخلوق بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسکی مملوک ہے اور مملوک ہونے کے ساتھ سب اسکے محکوم اور مطیع و منقاد ہیں کہ اس کا ہر حکم ان پر جاری اور نافذ ہوکر رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کا موجد ہے اور اسکی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ بس اس کو کہہ دیتا ہے ہوجا ! سو وہ ہوجاتا ہے۔ یہود حضرت عزیر کو اور نصاریٰ حضرت مسیح کو ابن اللہ کہا کرتے تھے اور کبھی اپنے آپکو بھی خدا کا بیٹا کہہ دیا کرتے تھے۔ نحن ابناء اللہ واحباء ہ یعنی ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔ مشرکین عرب بھی ان کی دیکھا دیکھی فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنے لگے اور چونکہ فرشتے نظر نہ آتے تھے اور ان کا ذکر آتا تھا تو ان بدبختوں نے یہ طعنہ دیا کہ بھلا فرشتے ہمارے سامنے کیسے آسکتے ہیں وہ تو اللہ کی بیٹیاں ہیں اس لئے پردے میں رہتی ہیں۔ غرض اس آیت میں ان سب کی بات نقل کرکے پہلے تعجب فرماتے ہیں پھر اس دعویٰ کا رد کرتے ہیں سبحنہ ایسا ہی ہے جیسے ہم ارد و میں تعجب کے موقعہ پر کہا کرتے ہیں سبحان اللہ کیا خوب بات ہے بیہقی نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ سبحان اللہ کا کیا مطلب ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تنزیہ اللہ من کل سوئِ ہر عیب سے اللہ تعالیٰ کی پاکی اور برأت کرنا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کسی نے دریافت کیا جناب ہم لا الہ الا اللہ الحمد اللہ اللہ اکبر کا مطلب تو جانتے ہیں لیکن یہ سبحان اللہ کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا اس کلمہ کا کون انکارکر سکتا ہے یہ تو ایسا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور فرشتوں کو اس کے کہنے کا حکم دیا ہے اور اس کی مخلوق میں سے بہترین انسان اس کلمہ کے کہنے کے لئے مضطرب اور بےچین رہتے ہیں۔ ابن ابی حاتم حضرت حسن بصری ؓ سے روایت کیا ہے کہ سبحان اللہ اسم لا یستطیع الناس ان ینتحلوہ یعنی یہ ایک ایسا نام اور کلمہ ہے جس کو لوگ اپنے لئے نہیں استعمال کرسکتے کیونکہ ہر قسم کے عیوب اور کمزوری سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کون منزہ ہوسکتا ہے یہ ممکن ہے کہ اہل کتاب میں سے بعض بیوقوفوں نے یہ خیال کرکے اللہ تعالیٰ کا بےاولاد ہونا اس کیلئے عیب ہے یہ عقیدہ گھڑا ہو یا جیسا کہ قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ سابقہ ارباب شرائع اللہ تعالیٰ پر باپ کا اطلاق کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمارا باپ تو چھوٹا باپ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا باپ ہے کیونکہ سب کی پرورش کرتا ہے۔ ابتداً محض تعظیم و ادب کیلئے استعمال کیا گیا پھر سچ مچ اس کی طرف گمراہوں نے اولاد کی نسبت کردی ہو۔ بہر حال بات کہیں سے آئی مگر گمراہوں کا عقیدہ بن گئی۔ حضرت حق تعالیٰ اس عقیدہ کا رد فرماتے ہیں کہ جو چیز تمہارے لئے قابل فخر ہے وہ اللہ تعالیٰ کیلئے عیب ہے تم اس کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔ بیٹا باپ کا جز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تبعیض و تجزی سے پاک ہے۔ باپ بیٹے کا محتاج ہوتا ہے۔ بیماری میں بڑھاپے میں اس کو اولاد کی احتیاج ہوتی ہے مرنے کے بعد وارث کی اور کام کو سنبھالنے والے کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ عنی اور بےنیاز ہے بیٹا باپ کا مدد گار ہوتا ہے اسے کسی معین و مددگار کی ضرورت نہیں باپ کوئی کام کرتا ہے تو بیٹا اس کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بغیر کسی مادے اور بغیر کسی مشین اور آلے کے اور بغیر کسی ہاتھ بٹانے والے کے اور بغیر کسی نمونہ کو دیکھنے کے خود ہی ایجاد کئیے اور بنا کھڑے کئے اور وہاں تو ہر کام کی یہی حالت ہے کہ بس کن کہنے کی دیر ہے ارادے کا تعلق اس شے سے ہو اور وہ ظاہر ہوئی پھر بیٹا باپ کا ہمسر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمسر سے پاک ہے غرض وہ جب ہر قسم کی احتیاج اور تغیرات اور ہر قسم کے ہمسر اور شریک سے بالاتر ہے تو اس کے لئے اولاد کا ثابت ہونا اور اس پاک ذات کی طرف اولاد کی نسبت کرنا اس کی سخت توہین ہے۔ ایک حدیث قدسی میں شتمنی اور کذبنی کے الفاظ آئے ہیں یعنی ابن آدم مجھ کو گالی دیتا ہے اور میری تکذیب کرتا ہے جبکہ وہ کہتا ہے کہ میری کوئی اولاد ہے حالانکہ نہ میرا کوئی ہمسر اور نہ میں کسی سے پیدا ہو یعنی مجھ کو کسی نے جنا نہیں تو جب مجھ کو کسی نے جنا ہی نہیں تو مجھ سے کون پیدا ہوسکتا ہے ۔ لم یلد ولم یولد کا یہی مطلب ہے اور میری تکذیب یہ ہے کہ ابن آدم یوں کہتا ہے کہ میں مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ نہیں پیدا کرسکتا حالانکہ میں نے ہی تو ابتداء مخلوق کو پیدا کیا ہے پھر دوبارہ اس کو کیوں نہیں بنا سکتا۔ تانتون کا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات پر میرا ہی حکم چلتا ہے نہ کوئی موت کو ٹال سکتا ہے نہ بیماری کو نہ فقر کو ٹال سکتا ہے نہ غنیٰ کو اب آگے ان کافروں کا ایک اور قول نقل فرما کر اس کا رد فرماتے ہیں اور اس قول میں یہ احتمال ہے کہ فقط یہود کا ہو یا صرف اہل کتاب کا ہو یا فقط کفار عرب کا ہو یا اس سے بیہودہ بات میں سب شریک ہوں ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top