Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 121
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
الَّذِينَ : جنہیں اٰتَيْنَاهُمُ : ہم نے دی الْكِتَابَ : کتاب يَتْلُوْنَهٗ : اس کی تلاوت کرتے ہیں حَقَّ : حق تِلَاوَتِهٖ : اس کی تلاوت اُولٰئِکَ : وہی لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِهٖ : اس پر وَ مَنْ : اور جو يَكْفُرْ بِهٖ : انکار کریں اسکا فَاُولٰئِکَ : وہی هُمُ الْخَاسِرُوْنَ : وہ خسارہ پانے والے
وہ اہل کتاب جو اپنی کتاب کی اس طرح تلاوت کیا کرتے ہیں جو اس کتاب کی تلاوت کرنے کا حق ہے تو ایسے لوگ پر یعنی دین حق پر ایمان لے آتے ہیں اور جو اس کو نہیں مانتے تو وہی لوگ ہیں نقصان اٹھاے والے2
2 اور یہ یہود و نصاریٰ آپ سے ہرگز کبھی خوش نہ ہوں گے جب تک آپ ان کی ملت اور ان کے دین کے متبع اور پیرو نہ ہوجائیں اور چونکہ یہ بات ان کے طرز عمل سے ظاہر ہے اس لئے اے نبی آپ ان سے فرما دیجئے کہ ہدایت یعنی حقیقی سیدھی راہ تو وہی ہے جو راہ خدا تعالیٰ کسی کو بتادے اور اے پیغمبر اگر کبھی آپ خدانخواستہ اس بات کے بعد کہ آپ کے پاس صحیح اور قطعی علم آچکا ہے ان کی خواہشات اور ان کے خیالات فاسدہ کی پیروی کرنے لگیں تو پھر آپکو اللہ تعالیٰ سے بچانے والا نہ کوئی آپ کا حمایتی ہوگا اور نہ کوئی مددگار۔ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب یعنی توریت و انجیل دی ہے اور وہلوگ اس کتاب کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی تلاوت کرتے ہیں تو وہ لوگ دین حق پر ایمان لے آتے ہیں اور صحیح راہ کو اختیار کرلیتے ہیں اور جو شخص اس دین حق کو نہ مانے گا اور اس کا منکر ہوگا تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہوں گے اور خسارے میں پڑیں گے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاری کی دشمنی اور تعصب کا تو یہ عالم ہے کہ وہ اے نبی آپ سے اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کے دین کو قبول نہ کرلیں۔ حالانکہ ان کے دین کی یہ حالت ہے کہ اول تو انہوں نے خود ہی اس کو تحریف کرکے مسخ کردیا تھا اور اب تو وہ منسوخ ہوجانے کے بعد محض خواہشاتِ نفسانی کا مجموعہ رہ گیا ہے اور یہ جو فرمایا قل ان ھدی اللہ ھو الھدی یہ اس لئے کہ یا تو انہوں نے کہا ہوگا کہ آپ ہماری ملت قبول کرلیں تو ہم آپ سے خوش ہوجائیں اور آپ کی مخالفت ترک کردیں یا ان کے عناد اور دشمنی سے یہ ظاہر ہوتا ہوگا کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انکی ملت کے پیرونہ ہونگے وہ آپ سے مطمئن نہ ہونگے لہٰذا ارشاد ہوا کہ ان سے فرما دیجئے کہ ہدایت اور سیدھی راہ تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ بتائے ہر زمانے کی ہدایت اور اس کے طور طریقے جدا جدا ہوتے ہیں سابقہ دور میں توریت و انجیل کی بتائی ہوئی راہ خدا کی راہ تھی۔ لیکن اس زمانے میں خدا کی راہ وہ ہے جو قرآن بتاتا ہے پھر پیغمبر کو خطاب فرما کر تنبیہ کی کہ اگر آپ اپنے حق اور علم صحیح آنے کے بعد ان کی تالیف قلوب کی غرض سے یا ان کے مسلمان ہوجانے کی توقع پر کبھی ان کی خواہشات کا بالفرض اتباع کیا تو اللہ تعالیٰ کی وہ نصرت و حمایت جو اس وقت تم کو حاصل ہے وہ سلب کرلی جائے گی اگرچہ نبی کریم ﷺ سے اس کا ظہور یا وقوع محال تھا لیکن ایک شخص کو جس سے کسی فعل شنیع کے ارتکاب کا اندیشہ نہ ہو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اچھا نہہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب آپ ﷺ کو ہو اور آپکی امت کو تنبیہ مقصود ہو کہ یہودونصاریٰ کی خواہشات کا اتباع حضرت حق کی ولادیت اور نصرت کے منافی ہے۔ دوسری آیت میں بعض اہل کتاب کی تعریف ہے۔ جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ہمراہی جنہوں نے دین حق کو قبول کرلیا تھا اور نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں داخل ہوگئے تھے تلاوت کا حق ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کتاب کے حلال و حرام کو سمجھتے ہیں اور اس میں تحریف و تبدیل نہیں کرتے تو جو لوگ کتاب آسمانی کی تلاوت پوری توجہ کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی غرض سے کرتے ہیں تو اسلام کو قبول ہی کرلیتے ہیں اور نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لے ہی آتے ہیں اور جو محض نام کے تلاوت کرنے والے ہیں وہ ایمان سے محروم رہتے ہیں اور ان ہی کا دیوالہ نکل جاتا ہے اور بعض لوگوں نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ جو لوگ اہل کتاب میں سے اپنی اپنی کتاب کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں کہ تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں تو وہی اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو صرف توریت و انجیل کا نام لیتے ہیں اور صحیح طریقہ پر اس کو پڑھتے بھی نہیں وہ دین موسوی اور عیسوی پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ ہاں جو لوگ ان کتابوں کو توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ کم از کم ان سے بہتر ہیں جو محض نام کے یہودی یا عیسائی ہیں ان سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ اگر وہ اپنی اپنی کتابوں کو اسی طرح توجہ کے ساتھ پڑھتے رہے تو ایک دن اسلام پر ایمان لے آئیں گے اور نبی آخر الزماں ﷺ کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت عام ہو اور مسلمان بھی اس میں شامل ہوں اور مطلب یہ ہو کہ جو اپنی کتاب کو اس کی تلاوت کا حق ادا کرکے پڑھتا ہے وہی اس پر ایمان رکھتا ہے اور جو سرسری طورپر تلاوت کرتے ہیں اور غور و تدبر کے ساتھ نہیں پڑھتے ہوہ اس کتاب پر برائے نام ایمان رکھتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ جو تلاوت کا حق ادا کرکے پڑھتے ہیں وہی اس کے اتباع اور اس کی پیروی کا حق ادا کرتے ہیں حضرت عمر ؓ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ جب تلاوت کرتے ہوئے جنت کا ذکر آئے تو خدا تعالیٰ سے جنت طلب کرو اور جب قرآن میں جہنم کا ذکر آئے تو اس سے پناہ مانگا کرویہ قرآن کی تلاوت کا حق ہے۔ واللہ اعلم حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی یہود میں کم لوگ با انصاف بھی تھے کہ اپنی کتاب کو پڑھتے تھے سمجھ کر وہ اس قرآن پر ایمان لائے ایک ان کے عالم تھے عبداللہ بن سلام انکے ساتھ کئی اور بھی مسلمان ہوئے۔ (موضح القرآن) ان تفصیلات کے بعد آخر میں پھر ایک بار بنی اسرائیل کو اپنے احسانات کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ اور ان کے اکثر ناشائستہ کاموں اور نافرمانیوں کا ذکر کرنے کے بعد پھر ان کو قیامت کے دن سے ڈراتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top