Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 123
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : وہ دن لَا تَجْزِي : بدلہ نہ ہوگا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَفْسٍ : کسی شخص سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا تَنْفَعُهَا : اور نہ اسے نفع دے گی شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ : اور نہ ان مدد کی جائے گی
اور تم اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کے ذرا بھی کام نہ آسکے اور نہ کسی کی طرف سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے اور نہ کسی طرف سے کوئی سفارش نفع دے گی اور نہ لوگوں کو کسی مدد گار کی مدد پہنچ سکے3
3 اے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ! تم میرے ان احسانات کو یاد کرو جو انعامات و احسانات میں تے تم پر کئے ہیں اور اس بات کو بھی یاد کرو کہ میں نے تم کو اقوام عالم پر خاص فوقیت و برتری عطا کی تھی اور اس دن سے ڈرو جس دن نہ تو کوئی کسی کے کام آسکے اور نہ کسی کی طرف سے کوئی فدیہ اور معاوضہ قبول کیا جائے اور نہ کسی کو کوئی سفارش مفید و نافع ہو اور نہ ان کو کسی طرف دار کی طرف داری اور کسی مددگار کی مدد پہنچ سکے۔ (تیسیر) اقوام عالم کا مطلب وہی ہے جو ہم نے پہلے اسی قسم کی آیت کے تحت میں عرض کیا تھا کہ یا تو اس زمانہ کی اقوام مراد ہیں اور یا پھر بعض خصوصیات میں ان کو برتری اور فوقیت حاصل ہو یہ مطلب نہیں کہ قیامت تک جو لوگ پیدا ہوں گے ان پر بھی ان کو فضیلت حاصل تھی کیونکہ امت محمدیہ بہرحال تمام امم سابقہ سے بہتر اور برتر امت ہے مجرم کو حاکم کی سزا سے نجات دلانے اور بچانے کی یہی چند صورتیں ہیں کہ کوئی مجرم کی طرف سے مطالبہ اور وہ حق ادا کردے جو اس کے ذمہ واجب ہے اور یا کوئی کسی کی طرف سے فدیہ اور تاوان ادا کرکے مجرم کو چھڑا لے جیسا کہ آج کل جرمانہ کی رقم جو مجرم کی طرف سے ادا کردے تو مجرم رہا ہوجائیگایا پھر کوئی سفارش سود مند ہوتی ہے اور حاکم کسی کی سفارش سے متاثر ہوکر مجرم کو درگذر کردیتا ہے اور یا پھر کوئی زبردستی چھڑا کرلے جائے جیسا کہ فاتح عام طورپر مفتوح قوم کے قیدیوں کو چھو ڑ دیتے ہیں یا کمزور حکومتوں میں خود مجرم کے طرف دار مجرم کو چھین لیتے ہیں۔ غرض ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی قیامت کے دن کافروں کے حق میں چلنے والے نہیں ہے یہاں تک یہود کی حرکات مذمومہ کا ذکر تھا اور جن حرکات میں نصاریٰ اور مشرکین عرب بھی ان کے ہم نوا تھے ان کا بھی ذکر ان کے ساتھ فرمایا۔ اب آگے کی آیتوں میں تحویل قبلہ تمہید ہے اور تحویل قبلہ سے قبل کعبہ اور بنائے کعبہ کا ذکر فرمایا اور کعبہ کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر ضروری تھا اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرماتے ہیں نیز ضمناً یہود کے اس مشہور خیال کا بھی رد ہے کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور نبوت ان ہی کی اولاد کا حق ہے لہٰذا سوائے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کے ہم کسی نبی پر ایمان نہیں لائیں گے اور چونکہ ہم ان کی اولاد میں ہیں اس لئے ہم دوزخ میں بھی نہیں جائیں گے اور ہم ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں وہ بھی یہودی تھے ہم بھی یہودی ہیں ان سب امور کو بہترین ترتیب و تمہید کے ساتھ مع تحویل قبلہ کی بحث کے چوتھے رکوع تک بیان فرماتے ہیں اور چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بزرگی مشرکین عرب میں بھی مشہور تھی اور وہ بھی اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر سمجھتے تھے اس لئے ان کو بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات تے تنبیہ مقصود ہے۔ ( تسہیل)
Top