Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 138
صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١٘ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ
صِبْغَةَ : رنگ اللہِ : اللہ وَمَنْ : اور کس کا اَحْسَنُ : اچھا ہے مِنَ اللہِ : اللہ سے صِبْغَةً : رنگ وَنَحْنُ لَهُ : اور ہم اس کی عَابِدُوْنَ : عبادت کرنے والے
ہم پر رنگ چڑھا دیا ہے اللہ نے اور رنگ چڑھانے میں اللہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے اور ہم صرف اسی کے عبادت گزار ہیں1
1 سو اگر وہ یہود و نصاریٰ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو بلا شبہ وہ بھی ہدایت یافتہ اور راہ یاب ہوجائیں گے اور صحیح راستہ سے لگ جائیں گے اور اگر وہ دعوت حق کو قبول کرنے سے اعراض کریں اور منہ پھیریں تو جائے تعجب نہیں ہے کیونکہ وہ تو بس مخالفت ہی میں مبتلا ہیں اور وہ تو ہیں ہی برسر پیکار اب عنقریب اللہ تعالیٰ ان کی شرارت کے مقابلہ میں آپکی مدد کرنے کے لئے کفایت فرمائیگا اور ان کے مقابلہ میں آپ کے لئے کافی ہوگا اور وہ سب باتیں سنتا اور سب کے حال کو جاننے والا ہے ہم پر تو اللہ تعالیٰ نے دین فطرت کا رنگ چڑھا دیا ہے اور اللہ سے بہتر رنگ چڑھانے میں دوسرا کون ہوسکتا ہے اور ہم اسی کے عبادت گزار اور اسی کے غلام ہیں۔ (تیسیر) شقاق وفاق کا مقابل ہے وفاق کے معنی موافقت اور شقاق کے معنی مخالفت چونکہ ایک مخالف سے دوسرا مخالف پہلو پھیرتا اور بچاتا ہے اس کی مخالفت اور ضد اور ہٹ دھرمی کے موقعہ پر شقاق کا استعمال کرتے ہیں۔ کفایت کا ترجمہ اب اردو میں متروک ہوگیا اس لئے نمٹ لینا سلٹ لینا وغیرہ ترجمہ کرتے ہیں اصل مقصود یہ ہے کہ ان کے مقابلہ میں کسی اور کی ضرورت نہیں۔ اے پیغمبر ان کے لئے بس میں ہی تیری اس طرف سے کفایت کرونگا اور میں ہی ان سے نمٹنے کو کافی ہوں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ضامن ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کے لئے فرمایا کہ ان کی شرارتوں سے آپ متاثر نہ ہوں ہم ان کے لئے کافی ہیں یہ تسلی کے ساتھ پیش گوئی بھی ہے جو پوری ہوئی۔ جس طرح کپڑے کو رنگتے ہیں اور کپڑے پر رنگ چڑھاتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہم کو دین فطرت اور دین حق میں رنگ دیا ہے اور قلب کا کوئی گوشہ ایسا باقی نہیں رہا جس میں اللہ تعالیٰ کا رنگ سیرایت نہ کر گیا ہو جب اللہ تعالیٰ کے رنگ دینے کی حالت یہ ہو تو بھلا اب اس رنگ کو کون اتار سکتا ہے اور وہ رنگ کس طرح دور ہوسکتا ہے اور پکے اور پختہ رنگ پر کس کا رنگ چڑھ سکتا ہے اور ہم اپنے رنگنے والے کو چھوڑ کر کہاں جاسکتے ہیں ہم تو اسی کے عابد اور اسی کے غلام رہیں گے یہاں تک مسلمانوں کا وہ جواب ہے جو اہل کتاب کو دیا گیا۔ بعض لوگوں نے صبغۃ اللہ کا یہ مطلب بیان کیا کہ ہم کو دین فطرت پر پیدا کیا ہے اور ہم کو استعداد قبولیت عطا فرمائی اور ہم نے اسی استعداد کی وجہ سے ایمان قبول کیا ہے اس تقدیر پر اس آیت کی جانب اشارہ ہوگا جو سورة روم میں آئیگی فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا بعض حضرات نے فرمایا ہے مراد رنگ چڑھانے سے تطہیر ہے چونکہ ایمان نفوس انسانی کو جملہ آلائشوں سے اور ہر قسم کی نجاستوں سے پاک کردیتا ہے اس لئے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پاک کردیا ہے اور اب ہمارے دل میں ایمان کے خلاف کسی چیز کا داہمہ اور شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ بہرحال کوئی معنی کئے جائیں اصل مقصد ہم نے عرض کردیا کہ اہل ایمان کی پختگی اور مضبوطی اور ثبات قدمی کا اظہار ہے اور یہ کہنا ہے کہ ہم کو اب کسی باطل کی دعوت دینا اور تبلیغ کرنا بیکار ہے۔ ہر مسلمان اللہ کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ اہل کتاب کے بپتسہ کا جواب ہے جس کا نام نصاریٰ کی اصطلاح میں معمودیہ ہے وہ ساتویں دن بچہ کو زرد رنگ کے پانی میں غوطہ دیا کرتے ہیں یا جب کوئی شخص عیسائی ہوتا ہے تو اس کو ایک خاص رنگ کے ساتھ بپتسہ دیتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہود نے ایک دفعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا اے موسیٰ ! کیا تیرا ربرنگ بھی چڑھاتا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا خدا سے ڈرو اللہ کے متعلق کیسا سوال کرتے ہو۔ حضرت حق کی طرف اشارہ ہوا اے موسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہہ دو ہاں میں سرخ اور زرد اور سیاہ اور سب قسم کے رنگوں میں رنگ دیا کرتا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نصاریٰ کے پاس دستور تھا جس کو اپنے دین میں داخل کرتے ایک زرد رنگ بناتے اور اس کے کپڑے بھی رنگ دیتے اور اس پر ڈال بھی دیتے یہ ان کے مقابل فرمایا۔ (موضح القرآن) بہر حال ! ملت ابراہیمی اور شریعت محمدیہ پر قائم رہنے اور دین حق پر پختہ رہنے کو خدائی رنگ اور خدا کی رنگت سے تعبیر کرنا بہترین تعبیر ہے۔ (تسہیل)
Top