Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 147
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۠   ۧ
الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّکَ : آپ کا رب فَلَا تَكُونَنَّ : پس آپ نہ ہوجائیں مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
حق وہی ہے جو آپ کے رب کی جانب سے نازل ہوا سو آپ ہرگز شک کرنیوالوں میں شامل نہ ہوں2
2 اور اے پیغمبر ﷺ ان اہل کتاب کی ضد اور مخالفت کا یہ حال ہے کہ اگر آپ ان اہل کتاب کے روبرو ہر قسم کے تمام دلائل بھی پیش کردیں تب بھی یہ آپ کے قبلہ کو ماننے والے نہیں اور چونکہ آپ کا قبلہ اب ہمیشہ کے لئے کعبہ مقررہوچکا ہے تو آپ بھی ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں اور ان اہل کتاب کی تو یہ حالت ہے کہ یہ آپس میں بھی ایک فریق دوسرے فریق کے قبلہ کو نہیں مانتا اور اے پیغمبر ﷺ اگر آپ نے اس بات کے بعد کہ آپ کے پاس صحیح اور قطعی علم آچکا ہے خدانخواستہ کہیں ان اہل کتاب کی خواہشات نفسانی کا اتباع کیا تو یقینا آپ بھی اس وقت ظالموں میں شمار ہوں گے جن لوگوں کو ہم نے کتاب آسمانی عطا کی ہے وہ اس پیغمبر کو خوب ا چھی طرح پہچانتے ہیں اور ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ایک جماعت ان میں ایسی ہے کہ وہ لوگ امر حق کو چھپاتے ہیں حالانکہ وہ اس کے حق اور قطعی ہونے کو خوب جانتے ہیں۔ اے پیغمبر ﷺ امر حق وہی ہے جو آپ کے رب کی جانب سے نازل ہوا لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں شامل نہ ہوں اور آپ کا شمار شک کرنے والوں میں نہ ہو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی مخالفت اور سرکشی کا یہ عالم ہے کہ آئندہ کوئی صورت جہت قبلہ میں اتحاد کی نہیں ہے ان کے سامنے دنیا بھر کے دلائل بھی آپ پیش کردیں تو یہ کعبہ کو اپنا قبلہ نہیں بنائیں گے اور چونکہ اب صخرہ بیت المقدس جو عارضی طورپر بعض مصالح ظاہری اور باطنی کے اعتبار سے مقرر ہوا تھا وہ منسوخ ہوچکا تو اب آپ بھی اس منسوخ حکم کی تعمیل نہیں کرسکتے اور ان کی خود آپس میں یہ حالت ہے کہ یہود نے بیت المقدس کی غربی جہت کو قبلہ بنا رکھا ہے اور نصاریٰ نے بیت المقدس کی شرقی جانب کو اختیار کر رکھا ہے جہاں حضرت مریم (علیہا السلام) پر کلمۃ اللہ کا القا کیا گیا تھا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قبلہ کی یہ تقسیم ان کی خود ساختہ تھی یا آسمانی حکم سے کی گئی تھی۔ بہر حال ان حالات میں کیا توقع ہوسکتی ہے کہ یہ اہل کتاب کعبہ کی جہت کو اختیار کرلیں گے البتہ ان میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے اور اسلام قبول کرلے تو وہ بات دوسری ہے اور آیت زیر بحث میں سے اس سے کوئی تعارض بھی نہیں جو بلاوجہ شبہ کیا جائے۔ اہل کتاب کی خواہشات کی پیروی سے روکنے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ جب بہت سی خواہشات کی پیروی کرو گے جب ہی ظالم قرار دئیے جائو گے بلکہ کسی ایک خواہش کی اتباع بھی ظالم بنانے کے لئے کافی ہے جمع کا لفظ قرآن میں اس لئے لائے کہ اہل کتاب میں بکثرت گروہ ہیں اور ہر ایک گروہ کی مختلف خواہشات ہیں۔ اگرچہ آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد آپکی امت کے مسلمان ہوں اور اپنوں پر رکھ کر دوسروں کو سمجھانا ایک عام دستور ہے جو ہر زبان میں پایا جاتا ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ اس نبی کو اور اس کی نبوت کو ایسا پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اپنے بیٹے کی شکل صورت پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا کیونکہ بیٹا انسان کو پیارا ہوتا ہے اور اس کو گھڑی گھڑی گود میں لیتا اور پیار کرتا ہے اور اس کو خوب پہچانتا ہے اسی طرح یہ اہل کتاب اپنی کتابوں میں آپ کی صفت پڑھ کر آپ کو خوب پہچانتے ہیں اور ان کو آپ کے نبی آخر الزماں ہونے میں کوئی اشتباہ نہیں ہے است قریر پر اس مشہور شبہ کی گنجائش نہیں رہتی جو بعض لوگوں نے اس تشبیہ پر حضرت عبداللہ بن سلام کی ایک روایت سے شبہ کیا ہے حالانکہ عبداللہ بن سلام کی روایت کا وہ مطلب ہی نہیں ہے جو یہ کہا جائے کہ اقوی اور القین کی ضعف اور متحمل سے تشبیہہ لازم آتی ہے۔ اس روایت میں تو عبداللہ بن سلام ؓ کے ایقان و ادغان کا اظہار ہے اسی بنا پر حضرت عمر ؓ نے ان کو پیشانی کو بوسہ دیا تھا) اگر تفصیل مقصود ہو تو حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز (رح) کی تفسیر عزیزی ملاحظہ کی جائے یہاں بیٹے کے بیٹا ہونے میں تشبیہ نہیں ہے جو کسی نئی بحث کا دروازہ کھولا جائے بلکہ یہاں تو بیٹے کے پہچاننے میں تشبیہہ ہے اس لئے فرمایا کہ کچھ لوگ ان اہل کتاب میں ایسے ہیں جو جان بوجھ کر حق کو چھپاتے اور کتمان حق کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور چونکہ یہ قبلہ کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امر واقعی ہے۔ لہٰذا اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اے پیغمبر ﷺ آپ شکی قسم کے لوگوں میں سے نہ ہوں بعض حضرات نے یعرفونہ کی ضمیر سے قبلہ کی بحث مراد لی ہے اگرچہ اس کی بھی گنجائش ہے لیکن ہم نے اپنے ترجمہ کے موافق شرح کی ہے۔ (تسہیل)
Top