Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر ایک گروہ کی ایک سمت رہی ہے جس کی طرف وہ اپنی عبادت کے وقت منہ کرتا رہا ہے سو مسلمانوں تم نیک کاموں میں سبقت کرو تم جہاں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تم سب کو قیامت میں جمع کردے گا یقینا اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے1
1 اور آخر اس کعبہ کی جہت کو قبلہ مقرر کرنے میں تعجب کی کیا بات ہے ہر قوم ہر گروہ اور ہر ایک ملت کا ایک قبلہ رہا ہے جس کی طرف وہ اپنی عبادت کے وقت منہ کرتا رہتا ہے تو اس میں بحث کرکے اپناوقت کیوں ضائع کرتے ہو تم نیک اعمال میں بڑھنے اور آگے نکلنے کی کوشش کرو تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنے حضور میں حاضر کرے گا یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اس عالم میں ہر گروہ کی خواہ وہ اہل باطل ہو یا اہل حق ہو ایک نہ ایک ایسی جہت ہوا کرتی ہے جس کی طرف وہ اپنی عبادت کے وقت منہ کرتا ہے اہل حق ہو یعنی کسی آسمانی کتاب کا عامل ہو تو آسمانی حکم کی بنا پر اور اہل باطل ہو تو اپنی رائے اور اپنی سمجھ سے کوئی نہ کوئی سمت اختیار کرتا رہا ہے پھر اگر امت محمدیہ ﷺ جو ایک مستقل امت اور مستقل شریعت کی پابند ہے اس کے لئے بھی ایک قبلہ مقرر کردیا گیا تو آخر اس میں بلاوجہ بحث کیوں کرتے ہو بس اس بحث کو ترک کرو نیکیاں اور اعمال خیر کے حاصل کرنے میں لگ جائو اور یہ بات یادرکھو کہ تم کہیں بھی ہو یا کوئی جہت بھی اختیار کرو تم سب کو ایک دن اللہ تعالیٰ اپنے روبرو حاضر کرنے والا ہے اور یہ سب کو سمیٹ کر قیامت کے میدان میں جمع کرلینا اللہ تعالیٰ پر کچھ دشوار نہیں کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ حضر ت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ ضد کرنی کہ ہمارا قبلہ بہتر ہے یا تمہارا عبث ہے بہتری اسی کی ہے جو نیکیوں میں زیادہ ہو ہر امت کو ایک ایک قبلہ کا حکم ہوا تھا آخر سب کو ایک جگہ جمع ہونا ہے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب کی یہ تفسیر اس مشہور قول کی بنا پر ہے جو عام طورپر لوگوں نے اختیار کیا ہے یعنی ولکلٍ سے ہر امت مراد ہو اور مطلب یہ ہو کہ ہر امت کیلئے اللہ تعالیٰ ایک قبلہ معین کرتا رہا ہے لہٰذا امت محمدیہ ﷺ کا قبلہ بھی اس نے کعبہ کو مقرر کردیا لیکن احقر کا ترجمہ اس سے عام ہے اور میں نے ولکل سے ہر ملت اور اس کے ماننے والے مراد لئے ہیں خواہ وہ ملت باطلہ ہو یا ملت آسمانی ہو اور اس کے ماننے والے خواہ کتابی ہوں یا غیر کتابی اگر وہ ملت کسی پیغمبر کی ہوگی تب تو ظاہر ہے کہ ان کا قبلہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقرر ہوا ہوگا اور اگر وہ ملت کافرہ اور ملت مشترکہ ہوگی تو اس نے اپنی رائے اور اپنے بڑوں کے دیکھا دیکھی کوئی جہت اور سمت اپنی عبادت کے لئے مقرر کی ہوگی۔ بہر حال عبادت کے لئے کسی سمت خاص کا تقرر ایک عام دستور کے مطابق ہے۔ ملت آسمانی اور ملت کافرہ میں فرق یہ ہے کہ پہلا گروہ اپنا قبلہ خدا کے حکم سے تجویز کرتا ہے اور قبلہ کو محض عبادت کے وقت اسکی طرف منہ کرلینا سمجھتا ہے اور صرف اپنی تنظیم کی غرض سے ایسا کرتا ہے اور دوسرا گروہ یہ کام محض شیطان اور اصنام پرستوں کے مشورہ سے کرتا ہے اور جہت قبلہ کہ محض اس کی طرف منہ کرلینے کی چیز نہیں سمجھتا بلکہ اسکو معبود سمجھ کر اس کے آگے جھکتا ہے۔ بہر حال جب یہ دستور ایسا عام ہے تو امت محمدیہ نے ایسا کونسا نیا کام کیا ہے جو اس کو ہدف ملامت بنا کر مطعون کیا جارہا ہے اور ہر جگہ اسی کا چرچا ہورہا ہے اہل کتاب کہہ رہے ہیں انبیاء کا قبلہ اسی نبی نے ترک کردیا۔ مشرک کہہ رہے ہیں کہ اگر ابراہیم کی مسجد کو قبلہ بنانا تھا تو بیت المقدس کو کیوں قبلہ بنایا تھا اس آیت میں مسلمانوں کو بےموقعہ بحث و مباحثہ سے روکنا اور اعمال خیر کی ترغیب دینا مقصود ہے۔ بعض حضرات نے خیرات سے مراد قبلہ کا حکم لیا ہے یعنی کعبہ کو قبلہ بنانا یہ عمل خیر ہے تم اس حکم کی تعمیل میں عبادت کرو۔ بعض لوگوں نے اعمال خیر کو عام بنایا اور فاستبقوا کے امر کو عام کہا ہے یعنی یہ حکم اہل کتاب اور مسلمانوں سب کو ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو حکم دینا تھا وہ دے چکا اب تم لوگ بےکار بحث مباحثہ نہ کرو بلکہ نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو۔ (واللہ اعلم) یہ آیت بھی منجملہ اور اسباب و علل کے ایک سبب ہے یعنی جس طرح قبلہ کے سلسلے میں اور اسباب اور مصالح ذکر فرمائے تھے یہ بھی اس حکم کی ایک مصلحت ہے کہ جس طرح اور سب امتوں کا قبلہ رہا ہے اس امت مستقلہ اور متعدلہ کا بھی ایک قبلہ ہوناچاہئے تھا۔ استباق ایسے بڑھنے کو کہتے ہیں جس میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور واقعی اعمال خیراسی قابل ہیں کہ ان میں ایک کو دوسرے سے بڑھنے اور آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ والسابقون السابقون اولک المقربون اب آگے اسی قبلہ کی عمومیتکا اعلان فرماتے ہیں کہ مسلمان خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں ہوں ان کا قبلہ مسجد حرام ہی ہوگا۔ (تسہیل)
Top