Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور لوگوں میں سے بعض ایسا مخلص بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان تک صرف کر ڈالتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں پر بڑی شفقت کرتا ہے3
3 اور لوگوں میں سے بعض آدمی ایسا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کی رضا مندی تلاش کرنے کی غرض سے اپنی جان تک فروخت کر ڈالتا ہے اور اپنی جان بھی صرف کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں پر بڑی مہربانی اور بڑی شفقت فرماتا ہے۔ (تیسیر) اس آیت کا تعلق بظاہر حضرت صہیب بن سنان رومی سے معلوم ہوتا ہے یہ صہیب وہی مشہور صحابی ہیں جو موصل کے علاقے کے رہنے والے تھے رومیوں نے ایک زمانہ میں موصل پر حملہ کیا تو ان کے بزرگوں کو گرفتار کرکے روم میں لے گئے یہ صہیب وہیں بڑھے پلے اس لئے اس کو رومی کہتے ہیں اگرچہ عراقی عرب ہیں یہ مکہ میں آکر مسلمان ہوئے تھے بڑی عمر کے آدمی تھے۔ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو یہ بھی ایک دن چھپ کر ہجرت کی غرض سے نکلے کفار مکہ نے ان کو راہ میں گھیر لیا تو انہوں نے للکار کر کہا سن لو ! میں پہلے تو تمہاری تیروں سے خبر لوں گا اور جب تیر ختم ہوجائیں گے تو تلوار سے مقابلہ کروں گا اگر تم کو مقابلہ منظور ہو تو مقابلہ کرلو اور اگر مال چاہتے ہو تو مکہ میں میرا مال دفن ہے میں تم کو بتادیتا ہوں تم جا کر وہ مال نکال لو اور مجھ کو مدینہ جانے دو ۔ کفار دفینہ حاصل کرنے پر رضا مند ہوگئے اور ان کا پیچھا چھوڑ دیا اور انہوں نے تمام مال جہاں دفن کر رکھا تھا وہ ان کو بتادیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ربع البیع لبا یحییٰ یعنی ابا یحییٰ کی بیع نفع آور ہوئی اور صہیب کی تجارت سود مند ہوئی صہیب کی کنیت ابو یحییٰ ہے جب یہ مدینہ پہونچے تو حضر ت عمر ؓ کی سرپرستی میں صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت نے ان کا خیر مقدم کیا اور ان کو مبارک باد دی۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں قتل کیا جائے کسی نے کہا مجاہد فی سبیل اللہ کے بارے میں ہے بہرحال ہر وہ مخلص مسلمان جو اللہ کی راہ میں تکلیف اٹھائے اور دین کی خدمت میں ایذا دیاجائے اس آیت سے مراد لیا جاسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ حال صاحب ایمان کا کہ اللہ کی رضا پر اپنی جان دیوے۔ موضح القرآن بہرحال آیت کا شان نزول اگرچہ کسی مخصوص منافق اور مخلص مسلمان کے لئے ہو۔ لیکن آیت اپنے مفہوم میں عام ہے اب آگے عام مسلمانوں کو خطاب ہے اور اسلام میں پوری طرح داخل ہونے کی تاکید ہے۔ (تسہیل)
Top