Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی عجب نہیں کہ تم محفوظ رہو
2۔ اے افراد انسانی تم اپنے اس پروردگار کی بندگی اور عبادت بجا لائو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ توقع ہے کہ تم خدا کے عذاب سے بچ جائو ، وہ پروردگار جس کی عبادت کے لئے تم کو دعوت دی جا رہی ہے وہ ایسا محسن ہے کہ اس نے تمہارے بسنے اور زندگی بسر کرنے کے لئے زمین اور آسمان کو چھت بنایا اور اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا ۔ اور اس پانی سے تمہاری غذا اور تمہارے کھانے کیلئے مختلف انواع و اقسام کے پھل اگائے، لہٰذا ایسے بڑے حقیقی محسن کا کسی کو ہمسر اور شریک نہ ٹھہرائو ، حالانکہ تم جانتے بوجھتے ہو۔ (تیسیر) اس آیت میں تمام بنی نوع انسانی کو اپنے پروردگار کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ عبادت انتہائی تذلل اور عاجزی اور خشوع و خضوع کا نام ہے اس لئے انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی عبادت کا وہی مستحق ہوسکتا ہے۔ جو تمام مخلوق سے بالا اور برتر اور تمام مخلوق کا مربی اور محسن ہے ، زمین چونکہ پھیلی ہوئی ہے ۔ اس لئے اس کو فرش فرمایا اور آسمان چونکہ قبہ نما ہے اس لئے اسکو بناء سے تعبیر کیا ۔ تقویٰ کے معنی جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں پکنے اور احتیاط کرنے کے ہیں ۔ اس لئے ہم نے عذاب سے بچنے کے معنی کئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہو کہ تم متقیوں کے زمرے اور پرہیز گاروں کی جماعت میں شامل ہو جائو، جیسا کہ بیضاوی نے اختیار کیا ہے اور یہ جو فرمایا کہ توقع اور امید ہے کہ تم متقی ہو جائو اور اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں شاید اور توقع اور امید کے الفاظ کیوں ہیں وہ تو سب کچھ کرسکتے ہیں ۔ الو تو یہ بات کہ کلام میں وہی محاورے اور بول چال کا وہی طریقہ استعمال کیا ہے ۔ جو عام طور سے انسان بولتے اور سمجھتے ہیں نیز یہ کہ بادشاہوں کے کلام میں اس قسم کے الفاظ وعدے کے وقت بولے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کلام میں بھی عسٰی اور لعل اور مراد وعدہ ہی ہوتا ہے اور یہی ایک کریم کی شان ہے کہ جب وہ کہتا ہے اچھا دیکھا جائے گا یا یوں کہے اچھا دیکھو شاید ہوجائے یا یوں کہے امید ہے کہ ایسا ہوجائے تو ان سب کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ وعدہ ہوگیا ۔ اسی مطلب کے پیش نظر حضرت شاہ رفیع الدین صاحب (رح) ان الفاظ کا ترجمہ تاکہ فرمایا کرتے ہیں ۔ سماء اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہارے اوپر سایہ فگن ہو یہاں آسمان مراد ہے کیونکہ وہ تمام عالم پر چھایا ہوا ہے ۔ آسمان کی جانب سے پانی نازل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ مفسرین فرماتے ہیں کہ آسمان سے غیر مرئی طریقہ پر بادلوں پر پانی نازل ہوتا ہے۔ پھر بادلوں سے زمین پر برستا ہے اور جو لوگ محض بخارات سے بارش کا تعلق سمجھتے ہیں ان کے لئے بھی ہمارا ترجمہ مضر نہیں ۔ پھر جو پانی پرستا ہے اس کے امتزاج اور زمین کے ساتھ ملنے سے مختلف پھل اور میوے پیدا ہوتے ہیں ند کے معنی مثل اور مخالف کے ہیں جس کو اردو میں جواب کہتے ہیں جیسے فلاں چیز فلاں چیز کا جواب اور مقابل ہے اور یا یہ چیز اس چیز کی مثل ہے اسی لئے اہل لغت نے مماثلت اور مشارکت کے معنی لئے ہیں ۔ ہم نے شاہ عبد العزیز صاحب (رح) دہلوی کا لفظ ہمسر اختیار کرلیا ہے کہ اس خدائے یکتا ئو یگانہ کا کوئی ہمسر نہ ٹھہرائو او جو فرمایا کہ تم جانتے بوجھتے ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہو ۔ اتنی بات ادنیٰ سے غور و فکر سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ جب اس کا رخانہ عالم میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی دوسرا متصرف اور کار فرما نہیں ہے تو اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو کیوں شریک وسہیم بنایا جائے ۔ اب آگے نبی کریم ﷺ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کا ذکر فرماتے ہیں ۔ چوں کہ توحید باری کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی رسالت اور قرآن کی صداقت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے ۔ اس لئے توحید کی مناسبت سے رسالت اور قرآن کا ذکر فرماتے ہیں ۔ ( تسہیل)
Top