Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
سب نمازوں کی محافظت کرو اور خاص کر درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے روبرو باادب کھڑے ہوا کرو3
3 تمام نمازوں کی حفاظت اور ان پر مداومت اور ہمیشگی کیا کرو اور خاص طور پر درمیان والی نماز یعنی نماز عصر کی محافظت کیا کرو اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں مودب اور نیاز مند نہ کھڑے ہوا کرو۔ ( تیسیر) محافظت سے یہاں مداد مت مراد ہے۔ وسطی اوسط کی مؤنث ہے ۔ وسط کی ہم پوری بحث سیقول کی ابتداء میں کرچکے ہیں ۔ قنوت نے تقریباً بارہ تیرہ معنی علماء نے کئے ہیں ۔ مثلاً طاعت ، خشوع دعا ، دوام ، سکوت وغیرہ لیکن اس آیت میں عام مفسرین کے نزدیک سکوت راجح اور مختا رہے اسی طرح صلوٰۃ وسطی کے بارے میں بھی اٹھارہ قول ہیں ۔ مثلاً ہر نمازصلوٰۃ وسطی ہوسکتی ہے بعض نے کہا مغرب بعض نے کہا ظہر ، بعض نے کہا فجر ، لیکن ان اقوال میں بھی سب سے راجح اور مختار عصر کی نماز کا قول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمام نمازوں کی شان یہ ہے کہ ان کی پابندی کی جائے اور ان کے اوقات کی نگہداشت رکھی جائے اور ان کے فرائض و واجبات اور آداب و مستحبات کی رعایت کی جائے لیکن عصر کی نماز کی خصوصیات کے سامنے حفاظت کیا کرو اور حضرت حق کی جناب میں خشوع و خضو ع کے ساتھ با ادب اور خاموش کھڑے ہوا کرو ۔ یعنی نماز میں کوئی حرکت ایسی نہ کیا کرو جو نماز کے منافی ہو اور نہ کوئی باہم کلام کیا کرو۔ ابتدا میں لوگ نماز میں باتیں کیا کرتے تھے اس آیت کے بعد نماز میں بات کرنا بند ہوا ۔ غزوۂ خندق میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، خدا ان کافروں کی قبروں کو اور ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے انہوں نے ہم کو صلوٰۃ وسطی جو صلوٰۃ عصر ہے اس سے مشغول کردیا ۔ خندق کھودنے کی وجہ سے نماز عصر قضا ہوگئی تھی اس پر سرکار نے فرمایا تھا اور چونکہ عصر کا وقت کاروبار کا وقت ہوتا ہے اس لئے اس کی تاکید زیادہ ہے ۔ ایک اور روایت میں مرفوعا ً اس طرح آیا ہے کہ جس شخص سے عصر کی نماز فوت ہوگئی تو گویا اس کی اہل و عیال اور اس کا مال الٹ گیا ۔ صحیحین میں مرفوعا ً روایت ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے ان فی الصلوٰۃ لشغلا یعنی نماز میں ایک خاص شغل ہے اور نماز میں توجہ الی اللہ کی ضرورت ہے ایک اور روایت میں ہے کہ نماز ایک ایسی چیز ہے جس میں کلام نا س اور لوگوں کے لئے بات چیت کی گنجائش نہیں ہے ۔ نماز تو تسبیح تکبیر اور قرآن کی قرأت کا نام ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) ارشاد فرماتے ہیں بیچ والی نماز عصر ہے کہ دن اور رات کے بیچ میں اس کا تقید زیادہ کیا ہے اور طلاق کے حکم میں نماز کا حکم فرما دیا کہ دنیا کے معاملات میں غرق ہو کر بندگی نہ بھول جائو اس واسطے عصر کا تقید زیادہ ہے کہ اس وقت دنیا کا شغل اکثر ہے۔ فائدہ :۔ فرمایا کہ کھڑے رہو ادب سے تو جو حرکت جس سے آدمی معلوم ہو کہ نماز میں اس سے نماز ٹوٹتی ہے جیسے کھانا پینا یا کسی سے بات کرنی اور سو اس کے ( موضح القرآن) چونکہ اوپر کی آیتوں میں طلاق ، مہر اور عدت وغیرہ کا ذکر تھا اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ میاں بیوی کے خانگی قصے ، عام طور سے طرفین کی کوتاہیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور اس قسم کے جھگڑوں سے جو نقصانات فریقین کو پہنچتے ہیں وہ ہر شخص کم و بیش سمجھتا ہے اور عبادات ہوں یا معاملات دونوں میں جو کوتاہی ہوتی ہے اور ادائے حقوق میں جو قصور واقع ہوتا ہے وہ نفس کی خرابی سے ہوتا ہے اور ان سب امراض کا علاج اور پریشانیوں کو دوا نماز ہے اس لئے اس کا ذکر درمیان میں فرما دیا ۔ اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ نماز میں با ادب کھڑا ہونا چاہئے اور انسانی کلام سے اجتناب کرنا چاہئے تو نماز میں کوئی ایسا کام بھی نہ ہونا چاہئے جو نماز کے منافی اور مفسد صلوٰۃ ہو جس کو عمل کثیر کہتے ہیں ۔ عمل کثیر کے لوگوں نے مختلف مطلب بیان کئے ہیں سب سے زیادہ مشہور عمل کثیر سے ایسا فعل ہے جس سے دیکھنے والا یہ سمجھنے کہ یہ شخص نماز مں ی نہیں ہے۔ عمل کثیر کی اسی تعریف کو اپنے اکابر نے اختیار کیا ہے ۔ ( واللہ اعلم) اب آگے آیت میں نماز کی اہمیت کو اور تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے ہیں۔ ( تسہیلض
Top