Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور اس دن سے ڈرو کہ جس دن کوئی شخص کسی شخص کے ذرا بھی کام نہ آسکے اور نہ کسی کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہو سکے اور نہ کسی سے کوئی فدیہ لیا جائے اور نہ لوگوں کو کسی مدد گار کی مدد پہنچے3۔
3 ۔ اے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ! میرے ان احسانات کو یاد کرو جو احسانات و انعامات میں نے تم پر کئے اور اس بات کو بھی یاد کرو کہ میں نے تم کو اقوام عالم پر خاص فوقیت اور فضیلت عطا کی تھی اور اس دن سے ڈرو جس دن نہ تو کوئی کسی کے کام آسکے اور نہ کسی کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جاسکے اور نہ کسی کی طرف سے کوئی فدیہ اور معاوضہ حاصل کیا جاسکے اور نہ ان لوگوں کو کسی طرف دار کی طرف داری اور مددگار کی مدد پہنچ سکے۔ (تیسر) چونکہ یہاں سے احسانات کی تفصیل شروع کرنی مقصود تھی اس لئے پھر ان کو تاکید کی غرض سے توجہ دلائی گئی اور اقوام عالم سے مراد یا تو ان کے زمانے کی اقوام ہیں اور یا پھر بزرگ اور فضیلت سے بعض خصوصیات مراد ہونگی جو ان کو عطا کی گئی ہوں گی یہ مطلب نہیں کہ امت محمدیہ پر بھی ان کو فضیلت اور برتری حاصل تھی دوسری آیت میں قیامت کے عذاب سے ترہیب اور تخویف ہے اور نیز ان کے اس عقیدے کا بطلان ہے جو وہ کہا کرتے تھے کہ ہم بڑے لوگوں کی اولاد ہیں ہم کو اس عالم میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کسی مقدمہ میں مجرم کے لئے سزا سے بچنے کے عام طور سے چار ہی طریقے ہوسکتے ہیں یا تو کوئی مجرم کی طرف سے وہ مطالبہ ادا کرائے جو اس پر واجب ہے یا پھر کوئی زبردست سفارش پہنچ جائے جس سے حاکم متاثر ہوجائے اور یا پھر مجرم کو چھڑانے کی غرض سے کوئی فدیہ اور تا ان دے دیا جائے اور یا کوئی زبردست مددپہنچ جائے جو حکومت سے زبردستی چھڑا کرلے جائے قیامت میں ان چاروں صورتوں کا کافر کے لئے کوئی امکان نہیں۔ بنی اسرائیل کے سلسلے میں جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ یہ احسانات ان کے بڑوں پر اور گزشتہ لوگوں پر ہوئے تھے۔ جو بنی اسرائیل نبی آخر الزمان کے دور میں تھے ۔ ان پر یہ احسانات نہیں ہوئی تھے لیکن پہلے لوگوں کیساتھ اور باپ دادا کے ساتھ جو احسان کیا جائے اس کا نفع اور اس کا اثر اولاد کو بھی پہنچتا ہے۔ اس لئے حضور ﷺ کے زمانے اور دور ک بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا۔ بعض لوگوں نے اس طرح بھی ترجمہ کیا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم میرے وہ احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر یعنی تمہارے بڑوں پر وقتاً فوقتاً کئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم کیسے ہی گناہ کریں پکڑے نہ جائیں گے۔ ہمارے باپ دادا سے پیغمبر ہم کو چھڑا لیں گے۔ (موضع القرآن) (تسہیل)
Top