Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور اس اقعہ کو یاد کرو جب ہم نے دریا کو تمہاری وجہ سے پھاڑ دیا پھر ہم نے تم کو تو بچا لیا اور فرعون والوں کو غرق کردیا اور تم یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ۔1
1۔ اور اے بنی اسرائیل اس زمانے کو یاد کرو جبکہ ہم نے تم کو فرعون کی قوم اور اس کے متبعین کے مظالم اور ان کی غلامی سے نجات دی جن کی حالت یہ تھی کہ وہ تم کو سخت اور بدترین سزا دینے کی تلاش اور فکر میں لگے رہتے تھے اور وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کردیا کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑدیا کرتے تھے اور سا عذاب اور اس نجات میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی اور تم وہ موقعہ بھی یاد کرو جب ہم نے تمہارے راستہ دینے کی خاطر سمندر کو پھاڑ دیا پھر ہم نے تم کو تو غرق ہونے سے بچا لیا اور فرعون کی قوم اور اس کے متعبین کو تمہاری آنکھوں دیکھتے اس سمندر میں غرق کردیا۔ (تیسیرا) فرعون عمالقہ کی قوم میں سے تھا اور وہ سام بن نوح کی اولاد میں سے تھا اس کا نام تو اصل میں ولید بن مصعب تھا لیکن مصر کے بادشاہوں کا لقب اس زمانے میں فرعون تھا جیسا ایران کے بادشاہوں کو کسریٰ اور روم کے بادشاہوں کو قیصر اور یمن کے بادشاہوں کو تبغ اور حبش کے بادشاہوں کو نجاشی کہا جاتا تھا اسی طرح شاہان مصر کو فرعون کہتے تھے۔ آل سے یہاں فرعون کی قوم اور اس کے متعلقین مراد ہیں یہ لوگ بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم توڑا کرتے تھے اور جب سے ان کو کاہنوں اور نجومیوں نے یہ بتادیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری سلطنت کے لئے اور تیرے لئے ہلاکت کا موجب ہوگا تب سے انہوں نے بنی اسرائیل کے ہر پیدا شدہ بچہ کو قتل کرنا شروع کردیا تھا لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے مگر اولاد ذکور اور نرینہ اولاد کو ذبح کر ڈالتے تھے مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسویٰ کو پروان چڑھایا اور بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد بخشی اور فرعون اور آل فرعون کو غرق کردیا اور فرعون اور آل فرعون کا غرق اس طرح واقع ہوا کہ بنی اسرائیل کنارے پر کھڑے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے سحر ایسے دریا کو کہتے ہیں جس کا پانی شور اور کھاری ہو۔ علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ سجر سے مراد قلزم ہے اور سجر قلزم کی کنیت ابو خالد ہے چونکہ یہ واقعہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا اس لئے یہاں اجمالاً اس کا ذکر فرمایا دوسری جگہ انشاء اللہ تفصیل آئیگی نبی کریم ﷺ سے ابو یعلی نے ایک ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے ہ بنی اسرائیل کے لئے دریا جس دن پھاڑا گیا ہے وہ دن عاشور ہ یعنی محرم کی دسویں تاریخ تھی۔ فائدہ :- وفی ذلکم کا مشار الیہ بعض نے نجات کو اور بعض نے عذاب کو قرار دیا ہے ہم نے دونوں احتمال کی رعایت کر کے ترجمہ کیا ہے اور بلا کا ترجمہ امتحان اور آزمائش سے کیا اور یہ واقعہ ہے کہ حضرت حق مجل مجدہ خیر اور شرک کی دونوں حالتوں میں بندے کی آزمائش کیا کرتے ہیں جیسا کہ سورة انبیاء میں ارشاد ہے۔ ونبلوکم بالشر والخیر فتنہ۔ (تسہیل) ۔
Top