Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 52
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر عَفَوْنَا : ہم نے معاف کردیا عَنْكُمْ : تم سے مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ذَٰلِکَ : یہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
پھر اس گئو سالہ پرستی کے بعد بھی ہم نے تم سے درگذر کیا کہ شاید تم احسان مانو گے2
2 اور وہ موقعہ یاد کرو جب ہم نے حضرت موسیٰ سے چالیس دن اور رات کا وعدہ کیا تھا پھر جب وہ اس وعدے کے مطابق طور پر گئے تو تم نے ان کے جانے کے بعد ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا اور تمہاری حالت یہ تھی کہ تم ظلم اور ناانصافی پر تلے ہوئے تھے لیکن تمہاری اس ناشائستہ حرکت کے بعد بھی جب تم نے توبہ کی تو ہم نے تم کو معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا کہ شاید تم اس معافی کا احسان مانو گے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب تم فرعون کے مظالم سے نجات پانے کے بعد مطمئن ہوئے اور تم نے یہ خواہش کی کہ اب اگر ہم کوئی شریعت یا مستقل کتاب مل جائے تو ہم اس پر عمل کریں اور اس کو اپنا دستور العمل بنائیں کیونکہ اب ہم حکومت کافرہ مسلطہ سے آزاد ہوچکے ہیں اور وہ تمام رکاوٹیں دور ہوچکی ہیں جو ہماری راہ میں ایک کافر حکومت نے حائل کر رکھی تھیں اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا ہ تم تیس راتیں طور پر آ کر رہو پھر ان تیس راتوں میں دس رز بڑھا کر پوری چالیس کردیں جس کی تفصیل انشاء اللہ نویں پارے میں آئیگی بہرحال جب حضرت مسویٰ حسب وعدہ وہاں تشریف لے گئے تو تم نے ان کے پیچھے سامری کے بہکانے سے ایک گئوسالہ کی پرستش شروع کردی لیکن ہم نے تمہاری توبہ قبول کرلی اور تم کو درگزر فرما دیا یہ سب کچھ اس توقع پر کیا کہ تم اس نعمت کا حق مانو گے اور شکر گزار ہو گے آسمانی احکام میں چونکہ دن رات کا تابع ہے اس لئے صرف راتوں کا ذکر فرمایا اور دن کو تابعہ نیکی وجہ سے ذکر نہیں کیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے حاضری کا وعدہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے توریت عطا کرنیکا وعدہ فرمایا۔ اس لئے باب مفاعلت لائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باب مفاعلت صرف وعدہ سے کے معنی میں ہو جیسا کہ عام مترجم ترجمہ کر رہے ہیں باقی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ حضرت شاہ صاحب ظلمون کے نیچے کہتے ہیں اس کا قصہ سورة اعراف اور سورة طٓہ میں بیان کیا گیا ہے۔ (موضح القرآن) (تسہیل)
Top