Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور یہود کہتے ہیں کہ ہمارے دل محفوظ ہیں ۔ یوں نہیں بلکہ اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے لعنت کر رکھی ہے سو وہ بہت ہی تھوڑا ایمان رکھتے ہیں۔4
4 اور وہ یہودی کہتے ہیں کہ ہمارے دل بالکل محفوظ ہیں کہ اس میں کوئی دوسری بات داخل ہی نہیں ہوسکتی۔ یہ بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہود پر ا ن کے کفر کی وجہ سے لعنت کردی ہے اور ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے سو وہ بہت ہی تھوڑا ایمان رکھتے ہیں (تیسیر) یہود کا یہ قول یا تو بطور عذر تھا کہ ہم کیا کریں ہمارے دل پر تو پردے پڑے ہوئے ہیں۔ تمہاری باتیں ہمارے دل میں جگہ نہیں کرتیں اور یا وہ دلیل کے طور پر کہتے ہوں کہ مسلمانو ! تمہاری باتیں ہم پر کیا اثر کرسکتی ہیں ہمارے دل تو ہر طرح محفوظ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ قول بطور تفاخر ہو کہ ہمارے دل تو علوم و حقائق سے لبریز ہیں اور اب ان میں سے کسی دوسری بات کی گنجائش ہی کہاں ہے ۔ صاحب کشاف نے کہا اغلف اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر مختون ہو۔ ہم نے اس لئے ترجمہ محفوظ کے ساتھ کیا ہے۔ یہ یہود کا ایک خاص محاورہ تھا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے اعتقاد میں بڑے مضبوط اور پختہ ہیں ہم پر تمہارے مذہب کی کوئی بات اثر انداز نہیں ہوسکتی ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور وہ بالکل لبریز اور پر ہیں۔ سورہ فصلت میں ارشاد ہے۔ وقالوا قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ۔ یعنی اے پیغمبر ! جس کی طرف تو ہم کو بلاتا ہے اس سے ہمارے دلوں کے غلاف اور پردے روک بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اس لغو قول کا جواب فرماتے ہیں کہ اس محرومی اور حرمان نصیبی کا وہ سبب نہیں ہے جو یہ بیان کرتے ہیں بلکہ اس کا سبب وہ لغنت ہے جو ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر کی ہے۔ لعنت کے معنی ہیں ہٹا دینا اور دور کردینا۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ ہر خیر سے ان کو دھکے دے دیئے گئے ہیں اور حضرت حق نے ان کو اپنی رحمت سے محروم کردیا اور چونکہ اسلام پر ایمان لانا اور نبی رحمت ﷺ کی پیروی کرنا خدا کا بڑا انعام اور اس کی بڑی رحمت ہے اس لئے یہ راندئہ درگاہ الٰہی اس رحمت سے محروم ہیں اور یہ رحمت سے دوری اور پھٹکار ان پر ابتداء نہیں ہوئی بلکہ ان ہی کے کفر اور نافرمانی کی وجہ سے ان کے استھ یہ سلوک کیا گیا۔ تھوڑے ایمان کا یہ مطلب کہ اسلام کے وہ معتقدات جو شریعت موسوی میں بھی مذکور ہیں ان کو تو مانتے ہیں لیکن باقی شریعت محمدیہ ﷺ کو نہیں مانتے یا یہ کہ جو موسیٰ (علیہ السلام) لائے ہیں اس کو مانتے ہیں اور جو محمد ﷺ لائے ہیں اس کو نہیں مانتے اور شریعت محمدیہ ﷺ کا انکار یا بعض کا اقرار اور بعض کا انکار کفر ہے۔ قلوب کا ملعون ہونا بھی امراض باطنیہ کے درجوں میں سے ایک سخت خطرناک درجہ ہے جس کے بعد مریض کی صحت کا امکان باقی نہیں رہتا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہودی اپنی تعریف میں کہتے تھے کہ ہمارے دل پر غلاف ہے ۔ یعنی رسواء اپنے دین کی بات کے کسی کی بات ہم کو اثر نہیں کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق بات اثر نہ کرے یہ نشان ہے لعنت کا ۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے ایک بہت لطیف اشارہ فرمایا یعنی اثر نہ کرنے کے بھی دو مطلب ہیں اگر باطل اور بری بات اثر نہ کرے تو یہ بات اچھی ہے، لیکن اگر کسی بدقسمت پر اچھی بات اور حق بات اثر نہ کرے تو سمجھو کہ یہ خدا کی لعنت کا اثر ہے۔ تھوڑے سے ایمان رکھنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ حضرت مسویٰ کی کتاب پر بھی پورا ایمان نہیں رکھتے ورنہ اس کتاب میں تو نبی آخر الزماں ﷺ کے متعلق پیشین گوئیاں بھی ہیں۔ اگر یہ اپنی ہی کتاب پر پورا ایمان رکھتے ہوتے اور پوری کتاب مانتے تو نبی امی پر ایمان لے آتے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ بدنصیب تمام باتیں اپنے دین کو بھی نہیں مانتے اور تمہارے دین کے تو منکر ہی ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ قلب کی چار قسمیں ہیں۔ ایک تو صاف کہ اس میں چراغ روشن ہے اور وہ چراغ چمک رہا ہے۔ یہ دل تو مئومن کا دل ہے۔ جس میں ایمان کا چراغ روشن و درخشاں ہے۔ دوسرا قلب وہ ہے جس پر غلاف چڑھا ہوا ہے اور غلاف کا منہ بندھا ہوا ہے یہ کافر دل ہے تیسرا قلب وہ ہے جو اوندھا ہے یہ منافق کا دل ہے۔ چوتھا قلب دورنگی ہے کہ اس کا ایک حصہ سیاہ اور ایک حصہ سفید ہے یہ دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان بھی اور کفر بھی کبھی یہ رگن اختیار کرتا ہے اور کبھی وہ رنگ اس دل میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔ مسند احمد بن حنبل مختصراً (تسہیل)
Top