Kashf-ur-Rahman - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا نہیں بلکہ یہ حرکت ان کے اس بڑے نے کی ہے اگر یہ بت بول سکتے ہوں تو خود ان بتوں ہی سے تم دریافت کرلو
(63) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا نہیں بلکہ یہ کام اس بڑے دیوتا اور بڑے بت نے کیا ہے اگر یہ پتھر کے معبود بول سکتے ہوں تو ان سے دریافت کرلو اور ان سے پوچھ لو۔ یعنی بظاہر یہ احتمال قوی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حرکت اس بڑے بت نے کی ہے میرے متعلق یہ خیال کرنا کہ یہ میرا فعل ہے اس قسم کے احتمال کی گنجائش نہیں ہے۔ بہرحال ! جب یہ معبود ہیں اور تم ان میں قوۃ فاعلیت سمجھتے ہو تو اس احتمال پر کیوں بحث نہیں کرتے کہ اس بڑے معبود نے محض رقابت کی وجہ سے ان چھوٹے معبودوں کو توڑا ہے اور اس سے بھی آسان طریقہ تحقیق کا یہ ہے کہ اگر یہ بولتے ہوں تو خود انہی سے پوچھ لو کہ تم کو کس نے توڑا ہے۔ مفسرین نے اس موقع پر کئی طرح کلام کیا ہے لیکن ہم نے سہل تقریر کردی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا انکار اور بڑے بت کی طرف اثبات یہ جھوٹ نہیں ہے البتہ اس کی شکل جھوٹ کی سی ہے یہ ایک مناظرے کا طریقہ ہے کہ مخاطب کی توجہ کو اپنی طرف سے ہٹاکر دوسری طرف پھیر دیا جائے۔ اس لئے ایک ایسی بات فرمائی کہ ان کی توجہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے ہٹ گئی اور ابراہیم (علیہ السلام) کا بتوں کو توڑنے کا احتمال کمزورہوگیا اور وہ آپس کی سوچ بچار میں پڑگئے اور چونکہ شکل جھوٹ کی سی تھی اس لئے حدیث میں کذب کا لفظ مذکور ہے۔ یہ تعریض اور توریہ تھا۔ ورنہ جس کو قرآن کریم نے صدیق نبی کہا ہو اس کے پاس جھوٹ کہاں اور یہ ایسا ہی ہے۔ جیسا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ہجرت کے سفر میں ایک کافر سے فرمایا تھا۔ ھذا رجل یھدینی السبیل۔ یعنی اس نے راستے میں حضور ﷺ کے متعلق دریافت کیا تھا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے محمد رسول اللہ کہنے کی بجائے یہ فرمادیا کہ یہ ایک شخص ہے جو مجھ کو راستہ بتاتا ہے وہ کافر سمجھا کہ کوئی دلیل ہوگا۔
Top