Kashf-ur-Rahman - Al-Muminoon : 98
وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ
وَاَعُوْذُ : اور میں پناہ چاہتا ہوں بِكَ : تیری رَبِّ : اے میری رب اَنْ يَّحْضُرُوْنِ : کہ وہ آئیں میرے پاس
اور اے میرے رب اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس آئیں۔
(98) اور میرے پروردگار اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس آویں۔ یعنی کسی وقت کوئی ایسی بات ہو کہ آپ کو غصہ آجائے تو یہ بھی ایک شیطانی اثر ہے تو ایسے وقت پروردگار سے پناہ مانگ لیا کیجئے اور اس سے بھی پناہ مانگئے کہ شیطان آپ کے پاس آئیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چھیڑ شیطان کی ہے کہ دین کے سوال و جواب میں غصہ چڑھے اور لڑائی ہو پڑے اسی پر فرمایا کہ برے کا جواب دے اس سے بہتر۔ 12۔ خلاصہ ! یہ کہ شیطان کا نبی کریم ﷺ پر کوئی ایسا دخل نہیں جو کسی خلاف شریعت کام پر ابھارسکے اندیشہ اس کا ہے کہ خلاف مصلحت کسی کام پر نہ آمادہ کرے یا یہ کہ خطاب آپ کو ہے اور مراد عام لوگ ہیں۔ بہرحال ! نبی کریم ﷺ کو شیطان سے محفوظ اور معصوم رکھا گیا ہے۔ پناہ مانگنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر قسم کے اثر سے محفوظ رکھا جائے۔
Top