Kashf-ur-Rahman - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
اور بھلا ایک وہ شخص جس سے ہم نے کوئی بھلا اور اچھا وعدہ کر رکھا ہے پھر وہ شخص اس وعدہ کو پانے والا بھی ہے کیا یہ اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیوی زندگی کا کچھ سامان برتنے کو دے دیا پھر وہ قیامت کے دن ان لوگوں میں سے ہونے والا ہے جو مجرمانہ حیثیت پے پیش کئے جائیں گے
61۔ آگے قیامت کی مختصر تفصیل ہے بھلا ایک وہ شخص جس سے ہم نے ایک اچھا اور پسندیدہ وعدہ کررکھا ہے پھر وہ شخص اس وعدے کی چیز سے ملنے والا اور اس وعدے کو پانے والا بھی ہے کیا ایسا شخص اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیوی زندگی کا کچھ سامان برتنے کو دے رکھا ہے پھر وہ قیامت کے دن ان لوگوں میں سے ہونے والا ہے جو مجرمانہ حیثیت سے پیش کئے جانے والے ہیں ۔ شاید حضرت علی اور حضرت حمزہ ؓ اور ابو جہل کے مابین سخت گفتگو ہوئی تھی ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی یا شاید عمار بن یاسر ؓ ، اور ولید بن مغیرہ کی باہمی تکرار کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ بہر حال ! ایک مومن کامل اور دنیادار کافر کے مابین جو فرق ہے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایک شخص وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے جنت اور اس کی نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور وہ چیزیں حسب وعدہ اس کو ملنے والی بھی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تو یہ شخص یعنی مومن اس کافر جیسا کیسے ہوسکتا ہے جس کو کچھ سامان عیش دنیوی زندگی میں برتنے کو دے رکھا ہے اور وہ قیامت کے دن پکڑا ہواحاضر کیا جائیگا ۔ اور ان مجرموں سے ہوگا جن کو گرفتار کرکے حاضر کیا جائے یعنی ایک مومن کامل اور دین حق کا منکر دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ کہاں ایک بد کردارمجرم اور کہاں ایک شاہی مہمان دونوں میں مساوات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ، آگے مومن اور مجرم کے حالات کا ذکر ہے۔
Top