Kashf-ur-Rahman - Al-Qasas : 84
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزَى الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَنْ جَآءَ : جو آیا بِالْحَسَنَةِ : نیکی کے ساتھ فَلَهٗ : تو اس کے لیے خَيْرٌ مِّنْهَا : اس سے بہتر وَمَنْ : اور جو جَآءَ : آیا بِالسَّيِّئَةِ : برائی کے ساتھ فَلَا يُجْزَى : تو بدلہ نہ ملے گا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہوں نے عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ : انہوں نے برے کام کیے اِلَّا : مگر۔ سوا مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
جو شخص نیکی لے کر حاضر ہوگا تو اس کو اس نیکی سے بہتر بدلہ ملے گا اور جو شخص بدی لے کر حاضر ہوگا تو ایسے بد اعمالوں کو ان کے صرف انہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے
84۔ جو شخص نیکی لیکرحاضر ہوگا تو اس کو اس نیکی سے بہتر بدلا ملے گا اور جو شخص بدی اور برائی لیکر حاضر ہوگا تو ایسے بد اعمالوں کو صرف انہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے۔ یعنی نیکی لیکر قیامت میں حاضر ہونیوالا اس نیکی سے زیادہ بدلا پائے گا جس کا کم سے کم درجہ اس گنا ہوگا یعنی ایک نیکی کا مقتضایہ ہے کہ اس نیکی کی مثل بدلا مل جاتا لیکن نیکی والے کو دس گناہ بدلہ ملے گا اور یہ کم سے کم بدلا ہوگا یہاں تک کہ کسی کو سات سو تک بھی دیا جائیگا لیکن بدی کا بدلا اس بدی اور برائی کے مقتضا سے زیادہ نہیں ہوگا بلکہ صرف مقتضا کے مطابق دیا جائیگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس شخص پر افسوس ہے جس کی اکائیاں دہائیوں کو کھا جائیں یعنی جو ایک کی ایک لکھی جائے وہ زیادہ ہوں اور جو ایک کی دس لکھی جائیں وہ کم ہوجائیں تو گویا اکائیاں دہائیوں سے زیادہ ہوجائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ برائیاں بھلائیوں سے بڑھ جائیں حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نیکی پر وعدہ دیا نیکی کا وہ ملتا ہے مقرر اور برائی پر برائی وعدہ نہیں فرمایا کہ شاید معاف ہو مگر یہ فرمایا اپنے کئے سے زیادہ سزا نہیں ملتی ۔ 12
Top