Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور تم میں ایک گروہ ضرور ایسا ہونا چاہئے جو بھالئی کی طرف لوگوں کو دعوت دیا کریں اور نیک کاموں کا حکم کیا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے ہی لوگ مراد کو پہونچنے والے ہیں۔3
3 اور تم میں مبلغین اور داعین الی الحق کی ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہئے جو دوسرے لوگوں کو خیر اور بھلائی کی طرف دعوت دیا کریں اور اس جماعت کے لوگ دوسروں کو بھلے کام کرنے کا حکم دیا کریں اور برے کاموں سے ان کو منع کیا کریں اور ایسے ہی لوگ جو تبلیغ کا فریضہ ادا کریں گے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والے ہیں۔ (تیسیر) خیر سے ہر قسم کی صلاح مراد ہے خواہ وہ عقائد کی درستی ہو یا اعمال و اخلاق کی ہو۔ یا دین و دنیا دونوں کی اصلاح ہو۔ ابن مردویہ نے ابو جعفر محمد بن باقر سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ خیر سے مراد کتاب اللہ کی اور میری سنت کی پیروی ہے۔ حضرت عثمان غنی ؓ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تھے تو فرماتے تھے خیر سے مراد یہ ہے کہ مصائب و آلام کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور مسلمانوں کی پریشانی کو رفع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں۔ اس تقدیر پر اس جماعت سے مراد صلحا اور نیک لوگوں کی جماعت مراد ہوگی۔ اور ہوسکتا ہے کہ تبلیغ کی دو قسمیں کی جائیں۔ ایک یہ کہ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ان کو مسلمان بنایا جائے اور دوسری قسم یہ کہ مسلمانوں کو بھلے کام کا حکم کیا جائے اور برے کاموں سے روکا جائے۔ بہرحال خیر سے عام احکام مراد ہیں۔ معروف سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو شرعاً اور عقلاً مستحسن سمجھا جاتا ہے اور منکر سے مراد وہ چیزیں ہیں جو شرعاً اور عقلاً بری سمجھی جاتی ہیں، ہوسکتا ہے کہ معروف سے مراد وہ امور ہوں جو کتاب و سنت کے موافق ہوں اور منکر سے وہ چیزیں مراد ہوں جو ان دونوں کے خلاف ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معروف سے مراد طاعت اور منکر سے مراد معاصی ہوں۔ بہرحال معروف میں فرض، واجب، مستحب و مندوب وغیرہ سب شامل ہیں اور منکر میں حرام، مکروہ تحریمی، مکروہ تنزیہی وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگرچہ یہ جماعت امام مقرر کرے تب تو امر کے معنی حکم کرنے کے ظاہر ہیں۔ اور اگر خود مسلمان ایسی جماعت بنائیں اور حکومت کی سرپرستی اس کو حاصل نہ ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اچھی باتوں کو کہیں اور بری باتوں کو سمجھا کر ان سے منع کریں۔ اور چونکہ اس جماعت کے افراد کو من وجہ فوقیت اور خصوصیت حاصل ہے اس لئے امر کا لفظ ان لوگوں کے لئے قرآن نے استعمال فرمایا ہے۔ خواہ یہ امام کی طرف سے مامور ہوں یا نہ ہوں۔ مامور نہ ہونے کا یہ مطلب کہ امام غفلت کرے یا بدقسمتی سے امام ہی نہ ہو جیسے ہمارے دور میں امام کا وجود مفقود ہے۔ بہرحال امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو علماء نے فرض کفایہ فرمایا ہے اور امۃ کے لفظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ اس خدمت کو انجام دیتے رہیں تو دوسرے لوگوں سے مواخذہ نہ ہوگا ورنہ اب گناہ گار ہوں گے جس طرح جہاد کا حکم ہے۔ باقی رہا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا الزام ان ہی لوگوں پر عائد ہوگا جو معروف و منکر سے واقف ہوں یعنی اہل علم ہوں۔ ہمارے زمانے میں غیر اہل علم نے جو وعظ گوئی کا پیشہ اختیار کرلیا ہے اور بعض جاہل میلاد خوانوں کو لوگوں نے عالم سمجھ لیا ہے یہ لوگ مسلمانوں کے لئے بجائے نفع سخت نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں میں سے اچھے برے کی تمیز جاتی رہی ہے اور وہ ہر خوش گو گلو گویے کو عالم سمجھنے لگے ہیں اور اسی وجہ سے اسلامی اخلاق کا انحطاط ہو رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ امر بالمعروف کے مختلف درجے ہیں جو شحص امر بالمعروف پر قدرت رکھتا ہے تو امور واجبہ میں نصیحت کرنا اس پر واجب ہوگا اور یہ امور مستحبہ میں مستحب ہوگا اور اگر قدرت نہ ہو اور یہ جانتا ہو کہ لوگ مجھ کو نقصان پہنچائیں گے اور میں برداشت نہ کرسکوں گا تو امور واجبہ میں وجوب نہ رہے گا البتہ اگر ہمت کرے تو ثواب کا مستحق ہوگا اور اجر پائے گا۔ پھر قدرت کے بھی مختلف درجے ہیں اگر ہاتھ سے بری باتوں کو روک سکتا ہے تو منہیات شرعیہ کو ہاتھ سے روکنا واجب ہوگا ورنہ زبان سے کہنا واجب ہوگا اور اگر اتنی استطاعت بھی نہ ہو اور اہل فسق کا غلبہ ہو تو دل سے ہی نفرت کرنا کافی ہوگا اور بری بات کو قلب سے برا جاننا ضروری ہوگا۔ جیسا کہ ابو سعید خدری کی روایت مشہور ہے جس کو مسلم نے نقل کیا ہے جب ہاتھ اور زبان کی قدرت نہ رہے اور مایوس ہوجائے تو ایسے وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردینے میں مضائقہ نہیں البتہ فساق و فجار کی صحبت سے اجتناب ضروری ہوگا اور ایسی مجالس کو ترک کردینے کا حکم ہوگا۔ ہم پہلے پارے میں انا مرون الناس بالبر کی تفسیر میں تفصیلاً عرض کرچکے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خود بھی پابند ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے اگر کوئی عالم خود بےعمل ہو تو اس کی بےعملی کو عذر بنا کر عوام کو ترک عمل کی اجازت نہ ہوگی اگرچہ کسی عالم کا بےعمل ہونا بہت بری بات ہے۔ نعمان بن بشیر کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حدود میں مداہنت کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جہاز کے مختلف درجوں میں لوگ سوار ہیں نیچے درجے والے پانی لینے کی غرض سے اورپ آتے ہیں اور یہ اوپر کے درجے والے ان کو ستاتے ہیں اور پانی حاصل کرنے سے منع کرتے ہیں اس پر نیچے کے درجے والے جہاز کے تختہ کو توڑنا شروع کردیتے ہیں تاکہ پانی حاصل کریں اس پر اوپر کے لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ تم یہ کیا حرکت کر رہے ہو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کو پانی کی ضرورت ہے جب ہم اوپر جاتے ہیں تو تم لوگ ہم کو ستاتے اور تکلیف پہنچاتے ہو۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں تم ان کو جہاز کا تختہ توڑنے سے روکو اور ان کو پانی کی سہولت بہم پہنچائو ورنہ وہ بھی تباہ ہوں گے اور تم بھی غرق ہو جائو گے اور اگر تم نے جہاز کے تختوں کو توڑنے سے بچا لیا تو تم بھی بچ جائو گے اور وہ بھی بچ جائیں گے اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے۔ حضرت حذیفہ کی روایت میں ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسا عذاب بھیجے گا کہ پھر تم خواہ کتنی دعائیں کرو گے وہ واپس نہیں ہوگا۔ حضرت ابن مسعود کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے کہ جب بنی اسرائیل کے لوگ معاصی میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے ان کو سمجھایا لیکن وہ بعض نہ آئے تو ان کے علماء نے مداہنت اختیار کرلی اور ان کی مجالس میں شریک ہونے لگے اور ان سے علیحدگی اختیار نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر حضرت دائود (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم کی زبان سے لعنت کرائی۔ حضرت اسامہ بن زید (رح) کی روایت ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو قیامت کے دن جہنم میں ڈالا جائے گا اور اس کی آنتیں اس کے پیٹ سے باہر نکل پڑیں گی اور وہ اپنی آنتوں کے چاروں طرف اس طرح گھومتا ہوگا جس طرح چکی کا گدھا چکی کے چاروں طرف پھرتا ہے لوگ اس کو دیکھ کر کہیں گے کیا تو وہ شخص نہیں ہے جو دنیا میں ہم کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتا تھا۔ وہ جواب دے گا ہاں میں وہی ہوں لیکن میں بدقسمت جن باتوں کا تم کو حکم دیا کرتا تھا خود ان کو نہیں کرتا تھا یعنی بےعمل واعظ تھا۔ بغوی نے شرح السنۃ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ شب معراج میں ایک ایسی قوم پر گزرے جن کے ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے آپ ﷺ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں جبرئیل نے جواب دیا یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو خیر پر عمل کرنے کو کہتے تھے اور اپنے آپ کو فراموش کئے ہوئے تھے۔ بہرحال ایک جماعت دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے مقرر رہنی چاہئے اگر کچھ لوگ یہ کام کرتے رہے تو یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے یعنی ان کو اجر ملے گا اور دنیا میں مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا ان کی مردم شماری میں اضافہ ہوجائے گا جس کی آج کل جمہوریت میں بڑی ضرورت ہے قیامت میں نبی کریم ﷺ ان لوگوں سے خوش ہوں گے کیونکہ امت کی کثرت آپ کے لئے موجب فخرومباہات ہے نیز مسلمانوں کے عقائد و اعمال اور ان کے اخلاق درست رہیں گے باقی رہی آیت یایھا الذین امنوا علیکم انفسکم اس کے متعلق انشاء اللہ تعالیٰ بشرط زندگی ساتویں پارے میں عرض کرینگے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں فرض ہے ایک جماعت قائم رہے جہاد کرنے کو اور دین کا تقید رکھنے کو تاخلاف دین کوئی نہ کرے اور جو اس کام پر قائم ہوں وہی کامیاب ہیں اور یہ کہ کوئی کسی سے تعرض نہ کرے موسیٰ بدین خود عیسیٰ بدین خود یہ راہ مسلمانی کی نہیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے زبانی تبلیغ کے ساتھ جہاد کو بھی شامل کرلیا۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں آیت میں ہر قسم کی گنجائش ہے ہوسکتا ہے کہ دعوت الی الخیر سے جہاد مراد ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض ضدی اور ہٹ دھرم مسلمانوں سے بھی جہاد کی نوبت آجائے۔ جیسا کہ مانعین زکوٰۃ سے قرن اول میں ہوا اب آگے پھر تفریق اور باہم نااتفاقی کی تفصیل مذکور ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر افضل جہاد ہے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے بہت بڑے عالم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جس بات کی خوبی اور جس کام کی برائی کا کسی کو علم حاصل ہو وہ اتنی ہی بات کی تبلیغ کرسکتا ہے مثلاً نماز کی فرضیت کو ہر شخص جانتا ہے تو ایک بےنمازی سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نماز فرض ہے تو نماز پڑھا کر اسی طرح شراب کی حرمت سے عام آدمی واقف ہیں اس لئے ایک شرابی کو یہ کہہ کر روکا جاسکتا ہے کہ تو شراب نہ پیا کر اس کو شریعت نے حرام کیا ہے بہرحال ہم نے یہاں مختصر طور پر چند باتیں لکھ دی ہیں ورنہ اس بحث میں فرعی مسائل بہت ہیں۔ اب آگے مسلمانوں کے باہم متحد رہنے اور تفریق سے بچنے کی تفصیل مذکور ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top