Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 107
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ فَفِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَاَمَّا : اور البتہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ابْيَضَّتْ : سفید ہوں گے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے فَفِيْ : سو۔ میں رَحْمَةِ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت ھُمْ : وہ فِيْھَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو وہ خدا کی رحمت یعنی جنت میں ہوں گے وہ اس رحمت میں ہمیشہ رہیں گے1
1 اور تم اے مسلمانو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باوجود اس کے ان کے پاس واضح دلائل آ چکے تھے اور انہوں نے واضح دلائل اور واضح احکام پہنچ جانے کے بعد پھر دین میں باہم تفریق کرلی اور جدا جدا ٹولیاں بنالیں اور راہ راست سے جدا ہوگئے اور محض اپنی نفسانی خواہشات اور آپس کی ضد سے باہم اختلاف کرنے لگے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے اس دن بہت بڑا عذاب ہے اور وہ بڑے ہولناک عذاب میں مبتلا ہوں گے جس دن بہت سے چہرے سفید یعنی روشن اور چمکتے ہوئے ہوں گے اور بہت سے چہرے اس دن سیاہ ہوں گے۔ لہٰذا جن لوگوں کے چہرے کالے اور سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کیا تم ہی لوگوں نے اپنے ایمان لائے پیچھے کافرانہ روش اختیار کی تھی اور تم ہی ایمان کے بعد کافر ہوئے تھے اچھا تو اب تم اپنے اس کافرانہ طریق کی سزا کا مزہ چکھو جو تم نے اختیار کی تھی اور جو کفر تم کیا کرتے تھے اس کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو اور رہے وہ لوگ جن کے منہ روشن اور چمکدار ہوں گے سو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دامن میں ہوں گے اور رحمت خداوندی کے سایہ میں ان کو جگہ ملے گی اور وہ اس رحمت میں ہمیشہ رہیں گے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح آپس میں پھوٹ نہ ڈال لینا جو عام طور پر اہل کتاب اور کافروں کا شیوہ رہا ہے یا اہل بدعت اور اہل فسق کا طریقہ رہا ہے کہ واضح دلائل اور صاف وصریح احکام آجانے کے بعد بھی اصول دین میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیش نظر فروعی مسائل میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔ ایسے فرقہ پرست اور تفرقہ انداز لوگوں کو اس دن بڑا عذاب ہوگا جس دن بہت سے ایمان داروں کے چہرے روشن اور چمکتے ہوئے ہوں گے اور بکثرت کافروں فاسقوں اور اہل بدعات اور اہل اہواء کے چہرے سیاہ ہونگے ان موخر الذکر لوگوں سے جن کے چہرے سیاہ ہوں گے کہا جائے گا کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے یا تم نے ایمان کا اقرار کرنے کے بعد کافرانہ روش اختیار کی تھی اور عملی کفر کیا تھا۔ لہٰذا اب تم اپنے اس اعتقادی اور عملی کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو اور وہ ایمان دار اور مخلص اور کتاب و سنت کے پابند لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے رحمت سے مراد جنت ہے چونکہ جنت میں داخل ہونا حضرت حق تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل پر موقوف ہے اس لئے جنت کو رحمت فرمایا۔ اس آیت میں مفسرین کے کئی قول ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ الذین تفرقوا میں سب ہی لوگ داخل ہیں خواہ وہ مرتد ہوں کافروں میں سے اہل کتاب ہوں یا عام کفار ہوں منافق ہوں یا فساق فجار ہوں یا اہل بدعت اور فرق باطلہ ہوں سب کو یہ آیت شامل ہے۔ کیونکہ ہر شخص کے اختلاف کا مبنی اپنی اپنی اغراض اور نفسانی خواہشات ہیں جن کے باعث کوئی مرتد ہوگیا۔ کوئی منافق بن گیا۔ زبان سے اسلام کا اقرار کیا دل سے کافر رہا کوئی کفر ہی پر قائم رہا کوئی باوجود مسلمان ہونے کے بدعت کی طرف مائل ہوگیا کسی نے فسق کی راہ اختیار کی اور کوئی دین میں جدا گانہ راہ قائم کر بیٹھا جیسے اسلام میں فرق باطلہ۔ جنہوں نے اہل سنت والجماعت سے اختلاف کیا اور نئے نئے فرقے بنا لئے۔ حضرت ابو امامہ کا قول ہے کہ یہ لوگ خوارج ہیں جب آیت کو عام رکھا جائے تو اسی کی مناسبت سے اکفرتم کا ترجمہ کیا جائے۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں اس کی تشریح کردی ہے کیونکہ کفر بھی دو قسم کا ہے ایک اعتقادی ایک عملی۔ اہل کتاب نے نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل آپ کو تسلیم کیا اور آپ کی نبوت کو مانا لیکن آپ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ کا انکار کیا اور کفر کے مرتکب ہوئے۔ منافق بھی حقیقی کفر کے مرتکب ہوتے رہے کافر تو وہ بھی یوم میثاق میں حق تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرچکے تھے مگر دنیا میں آ کر اس اقرار سے پھرگئے یہی حال مرتدین کا ہے کہ دنیا میں آ کر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔ یہ سب لوگ اعتقادی کافر ہیں رہے فساق و فجار اور اہل بدعت و اہواء تو وہ لوگ عملی کافر ہیں ان سے کہا جائے گا کہ تم نے مسلمان ہونے کے بعد کفر کے لئے کام کئے۔ اب خلاصہ یہ ہوا کہ اے مسلمانو ! تم ان کفار اور مرتدین اور اہل بدعت اور اہل اہواء کی طرح نہ ہونا جنہوں نے دین کے اصول میں یا دین کے فروع میں محض اپنی نفسانی خواہشات کی بنا پر باہم تفرقہ ڈالا اور اختلاف پیدا کیا اور عذاب عظیم کے مستحق ہوئے۔ خواہ یہ عذاب دائمی ہو جیسے اعتقادی کافروں کے حق میں یا عرصہ دراز تک کے لئے ہو جیسے فساق اور اہل بدعت و اہواء کے حق میں اعاذنا اللہ منہ اس تقریر کے بعد حضرات صحابہ ؓ اور ائمہ مجتہدین کے باہمی اختلاف پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان تمام اختلافات کا یعنی محض دلائل ظینہ اور اجتہاد ہے اور بغیر کسی تعصب اور بغیر کسی مکابر سے اور بغیر کسی نفسانیت کے ہے بلکہ یہ اختلاف تو رحمت اور بندوں کی گنجائش اور وسعت کا سبب ہے۔ جیسا کہ عبد بن حمید نے اپنی مسند میں اور دارمی اور ابن ماجہ نے اور ابن عساکر اور حاکم نے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اس اختلاف کا سوال کیا جو میرے بعد ان میں رونما ہونے والا ہے۔ ارشاد ہوا تیرے اصحاب اے محمد ﷺ میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے آسمان کے تارے کہ کوئی نور میں زیادہ اور قوی ہے کہ کوئی نور میں کم اور ضعیف ہے لیکن ہر ایک میں نور موجود ہے لہٰذا ان میں سے جس کسی کو کوئی شخص اختیار کرلے گا اور باوجود ان کے باہمی اختلافات کے کسی ایک کو اختیار کرلے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہوگا۔ اسی طرح بیہقی نے مدخل میں عمر بن عبد العزیز سے اور طبقات ابن سعد نے قاسم بن محمد سے نقل کیا ہے کہ میرے اصحاب کا اختلاف تمہارے لئے رحمت ہے اور محمد ﷺ کے اصحاب کا اختلاف اللہ کے بندوں کے لئے رحمت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ سیاہ منہ ان کے ہیں جو مسلمانی میں کفر کرتے ہیں یعنی منہ نے کلمۂ اسلام کہتے ہیں اور عقیدہ خلاف اسلام کے رکھتے ہیں سب فرقے گمراہ یہی حکم رکھتے ہیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے ایک پہلو اختیار کرلیا ہے لیکن آیت میں گنجائش ہے کہ عام معنی اختیار کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے تسہیل میں مفصلاً عرض کردیا ہے آگے کی آیت میں اس سزا و جزا کی واقعیت کی اطلاع اور ان سزائوں کے مناسب ہونے کا اظہار ہے۔ (تسہیل)
Top