Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
تم اے امت محمدیہ بہترین امت ہو ایسی امت جو عام لوگوں کے فائدے کے لئے ظاہر کی گئی ہے تم نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ان اہل کتاب میں سے بعض تو مئومن ہیں اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں۔4
4 اے امت محمدیہ ﷺ ! تم لوگ تمام جماعتوں میں سے اچھی جماعت اور تمام امتوں میں سے بہترین امت ہو ایسی امت کہ عام لوگوں کی نفع رسانی کے لئے اور عام لوگوں کے فائدے کے لئے ظاہر کی گئی ہے اور وہ فائدہ یہ ہے کہ تم لوگوں کو اچھے کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور تم خود بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو اور اس ایمان باللہ پر قائم رہتے ہو اور اگر یہ اہل کتاب جو تمہارے مخالف ہیں یہ بھی ایمان لے آئے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور جس حالت میں یہ اب ہیں اس سے اچھے ہوجاتے کیونکہ خیر امت میں داخل ہوجاتے لیکن یہ سب مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ان میں سے کچھ تو مسلمان ہیں اور بکثرت ان میں سے کافر اور نافرمان ہیں۔ (تیسیر) امت محمدیہ ﷺ کو خیر امت فرمایا جس طرح نبی کریم ﷺ افضل رسل ہیں جیسا کہ تیسرے پارے کے آخر میں گزرا کہ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی مدد کرنے پر عہد لیا گیا۔ پھر چوتھے پارے میں ان کے معبد یعنی کعبہ کو اول بیت فرمایا۔ پھر شریعت محمدیہ ﷺ کی فضیلت اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا ذکر ہوا۔ اب اس امت کے خیر الامم ہونے کا اظہار فرمایا۔ اس خیریت کے متعلق مفسرین کے تین قول ہیں کہ یا تو اس سے صحابہ مراد ہیں۔ جیسا کہ حضرت عمر کا قول ہے یا اس خیر امت سے مراد مہاجرین ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے یا اس سے مراد تمام امت محمدیہ ہے جیسا کہ عام رجحان یہی ہے کہ تمام امت محمدیہ افضل الامم ہے البتہ صحابہ کا قرن تمام امت میں افضل قرن ہے۔ طبرانی نے مرفوعاً روایت کی ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے کہ جنت کا داخلہ اس وقت تک تمام انبیاء پر ممنوع ہے جب تک میں جنت میں داخل نہ ہو جائوں اور جب تک میری امت جنت میں داخل نہ ہوجائے اس وقت تک دوسری امتوں پر جنت کا داخلہ حرام ہے یعنی نبیوں میں سب سے پہلے میں داخل ہوں گا اور امم میں سب سے پہلے میری امت داخل ہوگی۔ حضرت جابر ؓ سے مرفوعاً روایت ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے اہل جنت کی کل صفیں ایک سو بیس ہوں گی جن میں اسی 08 صفیں صرف میری امت کی ہونگی اور باقی دوسری امتوں کی ہونگی۔ حضرت ابو سعید خدری سے مرفوعاً روایت ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے میری امت ایسی ہے جیسے بارش، بارش کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پہلا دور اس کا مفید اور بہتر ثابت ہوگا یا پچھلا حصہ مفید اور نافع ہوگا۔ یعنی بارش ہر طرح بہتر ہے کبھی ابتدائی بارش پیداوار کے لئے مفید ہوتی ہے اور کبھی آخری بارش مفید اور نافع ہوتی ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اگرچہ اس امت کو مختلف اعتبار سے افضلیت حاصل ہے لیکن یہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خصوصیت کا ذکر فرمایا ہے اور یہاں اس خصوصیت کا ذکر اس لئے فرمایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی غرض سے اس امت میں جہاد بھی بھی ہوگا اور منکر کو قوت و طاقت سے دبایا جائے گا۔ منکر میں کفر و شرک، بدعت اور فسق و فجور اور رسومات قبیحہ وغیرہ سب داخل ہیں۔ نیز یہ کہ اس امت کی دعوت عام ہے اور تمام اہل عالم کے لئے ہے یہ دو باتیں دوسری امم کو حاصل نہ تھیں کسی امت میں جہاد تھا لیکن اس کی دعوت عالمگیر نہ تھی اور کسی میں جہاد کا بھی حکم نہ تھا اس امت کی دعوت بھی عالمگیر ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے جہاد کا بھی حکم ہے اگر کوئی قوم دعوت اسلام کا مقابلہ کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں رکاوٹ پیدا کرے تو اس سے جہاد کرو اور قوت سے اس کو دفع کرو تاکہ تبلیغ میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ غرض یہ امت ہر طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو انجام دیتی ہے خواہ تحریر و تقریر سے ہو یا تلوار سے ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ تؤمنون باللہ بھی فرمایا۔ تومنون باللہ میں تمام احکام اسلام آگئے۔ جیسا کہ طلحہ بن عبید اللہ کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے کہ تم جانتے ہو ایمان باللہ کیا ہے لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول جانتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ایمان باللہ اس کو کہتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی شہادت دینا، نماز کی پابندی کرنا، زکوٰۃ دینا رمضان شریف کے روزے رکھنا اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا۔ اگرچہ تومنون باللہ دوسری امتوں میں بھی تھا لیکن چونکہ یہ شریعت مکمل ہے اس لئے اس امت کے مومنون کو بھی ایک کمال اور برتری حاصل ہے اور یہ وجہ بھی اس امت کی خیریت اور بہتری کی ہوسکتی ہے نیز یہ کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور شرک کی مذمت کا جس قدر اہتمام اس امت میں ہے دوسری امتوں میں اس قدر اہتمام اور شیوع نہیں تھا اس لئے اس خصوصیت کا ذکر کیا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ یہ امت لوگوں کو نفع رسانی اور خلق ہدایت کے لئے عالم وجود میں آئی ہے اور یہ نفع رسانی اس کی تمام اہل عالم سے وابستہ ہے اور سب کو اچھے کام کرنے کو کہتی ہے اور بری باتوں سے منع کرتی ہے اور اس تبلیغی سلسلے میں ہر ایک نرم اور گرم طریقہ اختیار کرتی ہے بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ اور دین حق کی ترویج اور اصول اسلامی کی اشاعت میں جان تک دینے سے دریغ نہیں کرتی۔ پھر یہ کہ خود بھی ایک کامل و اکمل شریعت پر ایمان رکھتی اور تمام احکام اسلامی پر عمل کرتی ہے۔ معروف کو بجا لاتی ہے اور منکر سے اجتناب کرتی ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے یہ امت محمدیہ ﷺ خیر امم اور افضل امم ہے۔ امت محمدیہ ﷺ کی خیریت اور بہتری کا اظہار کرنے کے بعد اہل کتاب کو ترغیب ہے کہ اگر یہ لوگ بھی ایمان لے آتے تو خیر الامم میں داخل ہوجاتے بلکہ ان کو دوہرا ثواب ملتا ایک اپنے نبی پر ایمان لانے اور اس کے احکام کو بجا لانے کا اور دوسرا نبی آخر الزمان ؐ پر ایمان لا کر اسلام میں داخل ہونے کا لیکن ان میں محض چند لوگ، حضرت عبد اللہ بن سلام بادشاہ نجاشی اور کعب احبار وغیرہ تو مسلمان ہوئے اور بہت زیادہ تعداد ان کی اپنی ریاست اور وجاہت کے شوق میں کافر ہی رہی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ امت ہر امت سے بہتر ہے اسی دو صفت کو امر معروف یعنی جہاد اور ایمان، یعنی توحید کا تقید اس قدر اور دین میں نہیں۔ (موضح القرآن) یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس امت کا خیر الامم ہونا صرف ان دو باتوں میں جو حضرت شاہ صاحب (رح) نے فرمائی ہیں منحصر نہیں ہے اور نہ صرف ان تین باتوں پر منحصر ہے جو فقیر نے عرض کی ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ یہ امت بہت سی خصوصیات اور مختلف اعتبارات سے خیر الامم ہے چونکہ اسی آیت میں معاندین اہل کتاب کی اکثریت کا ذکر آیا تھا اور اہل کتاب کی عداوت ظاہر ہی تھی۔ ادھر امت محمدیہ ﷺ کو عام دعوت کا حکم تھا تو اب خیال ہوتا تھا کہ دشمنوں کی اکثریت ہے ایسے موقعہ پر اسلام کی دعوت اور تبلیغ میں بہت دشواریاں پیدا ہوں گی۔ آگے ان دشواریوں اور خطرات کی جانب سے مسلمانوں کو مطمئن فرمایا۔ (تسہیل)
Top