Kashf-ur-Rahman - An-Naml : 70
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ : چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں اِلَّا : سوائے بِحَبْلٍ : اس (عہد) مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَحَبْلٍ : اور اس (عہد) مِّنَ النَّاسِ : لوگوں سے وَبَآءُوْ : وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (کے) وَضُرِبَتْ : اور چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَسْكَنَةُ : محتاجی ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھ جاتے
وہ خواہ کہیں بھی پائے جائیں ان پر ذلت لازم کردی گئی مگر یہ کہ وہ اللہ کا ذمہ اور لوگوں کی پناہ حاصل کرلیں اور وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے اور ان پر ذلت و پستی چمٹا دی گئی یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ احکام خدا وندی کا انکار کرتے تھے اور ناحق جانتے ہو پیغمبروں کو قتل کردیا کرتے تھے اور ان کی اس دلیری کا سبب یہ تھا کہ وہ نافرمانی کے خوگر تھے اور حدود الٰہیہ سے نکل جاتے تھے۔1
1 اے مسلمانو ! وہ اہل کتاب تم کو بجز معمولی اور خفیف اذیت کے کوئی بڑا نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر کبھی وہ تم سے مقابلہ پر آمادہ ہوجائیں اور تم سے جنگ کریں تو میدان جنگ سے تم کو پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے پھر ان کی کہیں سے کوئی امداد نہیں کی جائیگی اور کسی طرف سے ان کی کوئی حمایت نہیں ہوگی وہ خواہ کہیں بھی ہوں اور کہیں بھی پائے جائیں ان پر ذلت و بےقدری اور بےامنی لازم کردی گئی ہے مگر ہاں دو صورتوں میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا ذریعہ حاصل کریں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو یا کوئی ایسا ذمہ اور دستاویز حاصل کریں جو لوگوں کی طرف سے ہو اور یہ لوگ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے اور ان پر پستی اور مسکنت چمٹادی گئی یہ ذلت اور غضب ان پر اس وجہ سے پڑا کہ وہ احکام الٰہی کو ماننے سے انکار کرتے تھے اور یہ جانتے ہوئے کہ نبیوں کا قتل کرنا حق کے خلاف ہے پھر نبیوں کو قتل کردیا کرتے تھے اور اس دلیری و بےباکی اور جرأت علی الاثم کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ نافرمانی کے عادی اور خوگر ہوچکے تھے اور خدا کی مقررہ حدود سے آگے نکل جاتے تھے (تیسیر) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا تعلق یہود سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ تم کو سوائے اس کے کہ برا بھلا کہہ کر اور گالیاں دے کر کچھ تکلیف پہنچائیں تو پہنچائیں باقی اور کوئی ضرر اور کوئی معتدبہ نقصان تم کو نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر کبھی ہمت کرکے مقابلہ کو نکل آئے اور میدان کارزار میں آ کھڑے ہوئے تو پیٹھ دیکر بھاگ جائیں گے کیونکہ ان میں مقابلہ کی جان نہیں ہے۔ اول تو سرمایہ دار اور عیش پرست لوگ ہیں پھر ملعون و مغضوب ہیں اس لئے ان میں جنگ کرنے اور مرنے کی ہمت نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ان کو اپنی نافرمانیوں کے باعث اپنا انجام معلوم ہے۔ نیز یہ کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل نہیں ہے جو کامیابی اور فتح کی اصل شرط ہے اس لئے سوائے اس کے کہ پیٹھ دیکر بھاگیں اور کیا کریں گے ایسی حالت میں ان کی کہیں سے کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی ذلت اور مسکنت کی تشریح ہم پہلے پارے میں کرچکے ہیں یہاں ذلت سے مراد یہ ہے کہ ان کی جان اور مال محفوظ نہیں اسی لئے ہم نے تیسیر میں اشارہ کردیا ہے کہ یہ لوگ جہاں بھی پائے جائیں اور جب بھی پائے جائیں ذلت ان سے وابستہ ہے اور یہ لوگ مباح الدم اور مباح المال ہیں نہ ان کی جان مامون ہے، نہ ان کا مال ہاں مامون ہونے کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ اللہ کا ذمہ ان کو حاصل ہوجائے دوسرے یہ کہ مسلمانوں سے کوئی معاہدہ ہوجائے یہاں حبل من اللہ وحبل من الناس سے مراد ذمہ ہے جس طرح رستی کو پکڑ کے انسان خطرات سے نجات حاصل کرتا ہے اسی طرح ایک کافرمعاہدے اور پناہ حاصل کر کے امان حاصل کرتا ہے اس لئے یہاں اس پناہ اور ذمہ کو جو خدا کی جانب سے اور بندوں کی جانب سے حاصل ہوجائے اس کو حبل من اللہ اور حبل من الناس سے تعبیر کردیا ہے۔ امان کی صورتیں دو ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصریح فرمائی ہو جیسے جزیہ کہ اگر یہ لوگ جزیہ دینا منظور کریں تو ان کو امن دے دو اور دوسری صورت یہ کہ امام کی رائے پر موقوف ہو اور وہ جس طرح مناسب سمجھے بعض شرائط کے ساتھ امن دے دے۔ اسی وجہ سے مفسرین نے اس موقع پر کئی طرح تفسیر کی ہے۔ مثلاً حبل من اللہ سے مراد یہ ہے کہ توریت کا نام لیتے ہیں اور کچھ بچی کھچی رسموں پر توریت کی عمل کرتے ہیں اس لئے پڑے ہیں یا یہ کہ شریعت نے ان کو مستثنیٰ کردیا ہو مثلاً کوئی راہب ہو یا کوئی عبادت گزار ہو یعنی جو لوگ لڑائی میں کوئی حصہ نہیں لیتے بلکہ ہر وقت عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں یا بڈھے اور عورتیں اور بیمار وغیرہ کہ ان کو مارنے کا حکم نہیں ہے یا یہ کہ جزیہ دینے کو تیار ہوجائیں یا یہ کہ اسلام مراد ہو کہ اگر اسلام قبول کرلیں تو مامون ہوسکتے ہیں یہ سب صورتیں حبل من اللہ کی ہیں اور حبل من الناس کا یہ مطلب ہے کہ مسلمانوں سے معاہدہ کرلیں یا مسلمانوں کی رعایا بن جائیں اور جزیہ دینا قبول کرلیں یا کسی اور طرح مسلمان ان کو امن دیدیں۔ غرض نتیجہ کے اعتبار سے اللہ کا ذمہ اور مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے لیکن بہرحال ذمۃ اللہ اور ذمۃ المسلمین دو چیزیں ہیں۔ اسی وجہ سے بعض حضرات نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ ان کو اللہ کا ذمہ یا مسلمانوں کا ذمہ ہی ذلت اور تباہی سے بچا سکتا ہے ہم نے تیسیر میں اسی طرح ترجمہ کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہود اپنی شرارتوں کے باعث ذلت و مسکنت اور غضب الٰہی کے مستحق قرار پاچکے ہیں یہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔ البتہ دو حالتیں مستثنیٰ ہیں کہ مسلمان ان کو پناہ دے دیں اور ان سے کوئی معاہدہ کرلیں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون ان کو مستثنیٰ کرتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الناس کا لفظ عام ہو اور مطلب یہ ہو کہ کسی حکومت کی رعیت بن کر اس کی پناہ میں آجائیں اور محفوظ رہیں۔ بہرحال حفاظت خود اختیاری سے یہ لوگ محروم کردیئے گئے اور یہ خود مختار ہو کر بغیر کسی دوسرے کا سہارا لئے مامون و محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اور اس دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت و رسوائی ہوسکتی ہے کہ کسی قوم کے پاس اپنے کو زندہ رکھنے کا سامان نہ ہو۔ مسکنت کا مطلب بھی یہی ہے کہ باوجود سرمایہ دار ہونے کے اپنے بخل اور کنجوسی کی وجہ سے ان پر مسکنت چھائی ہے اور اس سے بڑھ کر مسکین کون ہوسکتا ہے کہ جس کے پاس روپے ہوں اور اس کی قسمت میں اپنی کمائی سے فائدہ اٹھانا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ذات سے مراد غیر مامون ہونا اور مسکنت سے مراد غلام رہنا ہو۔ چونکہ الفاظ قرآنی میں بڑی وسعت ہے اس لئے ہر شخص نے اپنے ذوق کے موافق تفسیر کی ہے ہم نے تسہیل میں تمام اقوال کی زیادہ سے زیادہ رعایت کی ہے۔ قانون الٰہی یہ ہے کہ جب کسی قوم کی شرارت اور نافرمانی اور نیک بندوں کی ایذا رسانی اور حق کو حق جان کر اس سے روگردانی یہ باتیں حد سے بڑھ جاتی ہیں اور چھوٹے بڑے سب ان باتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم کو عام طور سے گھیر لیتا ہے۔ یہود کا یہی حشر ہوا کیونکہ ان لوگوں نے نبی آخر الزمان کا انکار کیا۔ قرآن سے روگردانی کی۔ اپنے زمانے کے انبیاء کو قتل کیا اور یہ جانتے ہوئے قتل کیا کہ انبیاء کا قتل کرنا بدترین مصیبت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑا ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم ذات اور غلامی مغلوبی اور محتاجی میں مبتلا کردی گئی اور اللہ تعالیٰ کے غضب میں پوری کی پوری قوم گھر گئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سوائے دست آویز یعنی یہود دنیا میں کہیں اپنی حکومت سے نہیں رہتے۔ بغیر دست آویز اللہ کے کہ بعض رسمیں توریت کی عمل میں لاتے ہیں اس کے طفیل سے پڑے ہیں اور بغیر دست آویز لوگوں کے یعنی کسی کی رعیت ہیں اس کی پناہ میں پڑے ہیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے حبل کا ترجمہ دست آویز کیا ہے اسی کی مناسبت سے شرح فرمائی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ شاہ صاحب (رح) کی شرح مختصر اور نہایت جامع ہے اللہ تعالیٰ کی دست آویز کا یہ مطلب کہ توریت کا نام لیتے ہیں اور اس کی کچھ باتوں پر عمل کرتے ہیں اس کے صدقہ میں جی رہے ہیں اور لوگوں کی دست آویز کا یہ مطلب کہ غلام ہیں اور رعیت بن کر دوسروں کے سہارے پر پڑے ہیں اپنی کوئی مضبوط اور پائیدار حکومت نہیں۔ قرآن کی یہ ایک پیشین گوئی تھی جو پوری ہوئی۔ یہود نے جہاں جہاں مسلمانوں سے مقابلہ کیا شکست کھائی۔ جیسا کہ بنی قینقاع، بنی قریظہ، بنی نضیر اور خیبر وغیرہ میں ہوا اور جس ذلت و مسکنت اور غضب میں مبتلا ہوئے تھے اس سے آج تک نکلنا نصیب نہیں ہوا چونکہ اہل کتاب کے اوپر دو حصے فرمائے تھے ایک حصہ مسلمان اور دوسرا معاند معاندین کی اکثریت کا اظہار فرمایا تھا اکثریت سے جو خطرہ لاحق ہونا تھا اس کو دور فرما دیا کہ اگر معاندین زیادہ ہیں تو ان کی اکثریت کی کوئی فکر نہ کرو یہ تمہارے مقابلے میں جم نہیں سکتے۔ اب آگے دونوں قسموں کی تفصیل بیان فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top