Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو تم کئی کئی گنے بڑھا کر سود نہ کھائو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پائو۔5
5 اے ایمان والو ! تم کئی کئی گنے بڑھا بڑھا کر اور کئی کئی حصے زائد کر کے سود نہ کھائو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو امید ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی اور تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گے۔ سورۂ بقرہ میں ہم سود کی تفصیل عرض کرچکے ہیں، عام طور سے وہاں کے سود خوروں کے دو طریقے تھے ایک یہ کہ سود پر روپیہ قرض دیا اور میعاد پر وصول نہ ہوا تو سود کو اصل میں ملا کر پوری رقم پر سود شروع کردیا پھر اگر وصول نہ ہوا تو اس سود کو اصل میں ملا دیا جیسا ہندوستان کے بنیئے کیا کرتے ہیں اور اس کو سود در سود کہتے ہیں اور کمپنی نے قصداً مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے قانوناً اس کو ہندوستان میں جاری کیا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کسی نے کوئی چیز قرض خریدی اور ایک مدت مقرر کردی۔ مدت پر روپیہ وصول نہ ہوا تو سود بڑھا کر اور مہلت دے دی۔ دوسری مدت پر روپیہ وصول نہ ہوا تو اور مہلت دے دی اور سود بڑھا دیا اور ہر مہلت پر ایسا ہی کرتے رہے۔ چونکہ یہ طریقے ان کے ہاں رائج تھے۔ اور اسی کو اضعافا مضاعفہ کہتے ہیں اس لئے آیت میں اس بڑھا بڑھا کر سود کھانے سے منع فرمایا اضعاقا مضاعقہ کی قید واقعی ہے احترازی نہیں۔ جیسا کہ بعض اہل باطل کہتے ہیں کہ دونے پر دونے کی حرمت ہے دونے سے کم ہو تو جائز ہے حالانکہ یہاں مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہے یہ قید ایسی ہے جیسے کوئی کہے مسجد حرام میں غیبت نہ کرو یا عالم کے سامنے جھوٹ نہ بولو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مسجد حرام کے باہر غیبت جائز ہے یا غیر عالم کے روبرو جھوٹ بولنا جائز ہے۔ اضعافا مضاعفہ کی تفصیل ہم قرض حسنہ کے بیان میں واقع کرچکے ہیں بنی نضیر کے یہودی ثقیف کے عربوں سے ایسا ہی سود وصول کیا کرتے تھے بہرحال سود تھوڑا ہو یا بہت سود کی سب قسمیں حرام ہیں جیسا کہ تیسرے پارے میں گزر چکا ہے اور اگر یہاں وہ سود مراد ہو جو مسلمانوں نے شہدائے احد کو دیکھ کر کہا تھا کہ ہم ستر مسلمانوں کا بدلہ معہ سود کے وصول کریں گے تو ظاہر ہے کہ پھر اس حکم کا مطلب یہ ہوگا کہ قابو پانے کے بعد بھی عدل و انصاف سے کام کرو اور کافروں کے قتل کرنے میں شرعی احکام کی رعایت رکھو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید سود کا ذکر یہاں اس واسطے فرمایا کہ اوپر مذکور ہوا جہاد میں نامرادی کا اور سود کھانے سے نامردی آتی ہے دو واسطے ایک یہ کہ مال حرام کھانے سے توفیق طاعت کم ہوتی ہے اور بڑی طاعت جہاد ہے۔ دوسرے یہ کہ سود لینا کمال بخل ہے کہ اپنا مال جتنا دیا تھا لے لیا بیچ میں کسی کا کام نکلا یہ بھی مفت نہ چھوڑے ! اس کا جدا بدلہ لینا چاہئے تو جس کو مال پر اتنا بخل ہو وہ جان کب دینا چاہے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کے منہیہ کی تفصیل ربط کی تقریر میں مذکور ہوچکی فلاح پانے کا مطلب یہ ہے کہ جنت میسر ہوجائے اور دوزخ سے بچ جائو۔ اب آگے جہنم سے بچنے کی تاکید ہے جو اصل میں کافروں کی جگہ ہے لیکن بعض گناہگار مسلمان بھی اس میں داخل ہوں گے خواہ دائمی طور پر نہ رہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top