Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 141
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْكٰفِرِیْنَ
وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ پاک صاف کردے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَيَمْحَقَ : اور مٹادے الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر قسم کے میل کچیل سے نکھار دے اور کافروں کے زور کو مٹا ڈالے۔3
3 اے مسلمانو ! اگر تم کو اس غزوئہ احد میں کچھ زخم اور صدمہ و پریشانی لاحق ہوئی تو گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ گزشتہ سال کا فر قوم کو بھی اسی قسم کا زخم اور صدمہ پہونچ چکا ہے اور ہم ان ایام کو یعنی زمانہ کے حوادثات اور غالب و مغلوب ہونے کو ان لوگوں کے درمیان باری باری ادلتے بدلتے رہا کرتے ہیں تمہارے ساتھ یہ معاملہ اس سال اس لئے کیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہری طور پر بھی جان لیں اور ان کو دوسروں سے متمیز کردیں اور نیز تم میں سے بعض کو شہید بنانا اور شہادت کا مرتبہ عطا فرمانا تھا اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ظالموں یعنی کافروں اور مشرکوں کو پسند نہیں کرتا اور کسی حال میں بھی ان سے محبت نہیں کرتا اور تمہارے ساتھیہ معاملہ اس لئے بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر قسم کے میل کچیل سے صاف کر دے اور ان کو نکھار دے اور اس لئے بھی ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے زور اور ان کی طاقت کو بتدریج ختم کر دے۔ (تیسیر) قرح اور قزح کے معنی ہیں جراحت اور زخم چونکہ غزوئہ احد میں مسلمان زخمی بھی ہوئے، شہید بھی ہوئے اور پیغمبر کے گزند سے صدمہ بھی ہوا اور ہزیمت بھی ہوئی چونکہ بعض مفسرین نے یہاں ہزیمت کے ساتھ تفسیر کی تھی اس لئے ہم نے تیسیر میں سب الفاظ نقل کردیئے ہیں۔ یہ زخم ظاہری ہوں یا باطنی قرح سب کو شامل ہے۔ تداولت کے معنی ہیں ہر تے پھرتے رہنا اردو میں بولا کرتے ہیں زمانہ سب کے ساتھ یکساں نہیں رہتا اصل میں تداول کا استعمال کھانے کے موقعہ پر بولا جاتا ہے جب ایک دور سے کو کھانے کے جوڑ دیکر دستر خوان تک پہنچاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے دیگ سے کھانا نکال کر اپنے سے قریب والے کو دیا اس نے دوسرے کو دیا اس نے تیسرے کو تیسرے نے چوتھے کو اسی طرح ادلتے بدلتے دستر خوان تک پہنچ گیا اور اسی کو ہم نے زمانے کے ہیر پھیر سے تعبیر کیا یہ۔ یہ بھی حضرت حق تعالیٰ کی بڑی عمیق مصلحت و حکمت ہے کہ کبھی کسی کو فاتح اور کسی کو مفتوح فرماتے رہتے یں تاکہ کافر ایمان لانے پر مجبور نہ ہوجائیں بلکہ سوچ کر اور سمجھ کر آزادی رائے کے ساتھ اسلام قبول کریں ۔ اس لئے اس عالم تکوین میں کسی قوم کے ساتھ نمایاں اور آشکارا خصوصی برتائو نہیں کیا جاتا اور حضرت حق تعالیٰ کی یہ وہ حکمت بالغہ ہے جو ہر شخص نہیں سمجھتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائے اور اس کو صحیح سمجھ دے۔ کلا نمد ھولاء وھولاء من عطاء ربک وما کان عطاء ربک محذورا سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا ہے ہم اس فریق کی بھی اور اس فریق کی بھی آپ کے رب کی عطا سے مدد کرتے رہتے ہیں اور آپ کے رب کی عطا اور اس کے فیض پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی مضمون کو یہاں وتلک الایام نداولھا بین الناس سے ظاہر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ گزشتہ سال تم کو غلبہ ہوا تھا اب کے سال تمہارے مخالف کو ہوگیا یہ تو ہمارا عام طریقہ ہے جو لوگوں کے مابین رائج کر رکھا ہے یہ دستور نہ صرف قوموں میں رائج ہے بلکہ افراد میں بھی پایا جاتا ہے کبھی کوئی سر بلند ہے کبھی کوئی کبھی کوئی خاندان آبرو میں زیادہ ہے کبھی کوئی خاندان کبھی کوئی قوم برسر اقتدار ہے کبھی کوئی قوم اس دنیوی شکست سے متاثر نہ ہو اس شکست میں بھی نہ معلوم کس قدر حکمتیں پوشیدہ ہیں پھر چند اور حکمتیں بیان فرمائیں ان حکمتوں میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کا امتحان ہوجائے کیونکہ یہی مواقع ہیں جن میں مخلص اور منافق نظر آجاتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ تو ہر ایک کو پہلے ہی سے جانتا ہے اللہ کے علم کی بحث دوسرے پارے میں گزر چکی ہے اگر علم کے معنی جاننے کے کئے جائیں تو یوں ترجمہ کیا جائے کہ وہ جانتا تو ہے ہی مگر اس طرح ظاہری طور پر بھی جان لیتا ہے اور اگر وہ معنی کئیجائیں جو ہم نے حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ رفیع الدین رحمتہ اللہ علیہما کے ترجموں سے اخذ کئے ہیں تو پھر کسیقید کی ضرورت نہیں یعنی یہاں علم سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کو معلوم ہوجائے کہ کون مخلص ہے اور کون منافق ہے برے اور بھلے میں امتیاز ہوجائے اگر یہ مصیبت اور پریشانی نہ آتی تو لوگوں میں امتیاز نہ ہوتا اور وہ ایک دوسرے سے متمیز نہ ہوتے۔ ان حکمتوں میں سے دو سری یہ کہ تم میں سے بعض کو شہادت کا مرتبہعطا کرنا مقصود تھا اور یہ مرتبہ اس پر موقوف تھا کہ مسلمان کافروں کے ہاتھوں مارے جائیں اور شہدائے احد کا لقب حاصل کریں اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض کو قیامت میں بطور گواہ پیشک ریں اورت م کو شدائد و مصائب کو برداشت کرنیوالوں کی فہرست میں پیش کیا جائے اور تم بطور شہادت پیش ہو۔ (واللہ اعلم) بیچ میں ایک شبہ کا ازالہ بطور جملہ معترضہ کے فرما دیا کہ کہیں یہ نہ سمجھو بیٹھنا کہ ظالموں کے ساتھ ہماری کوئی ہمدردی ہے یا ہم کافروں اور مشرکوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہماری پسندیدہ چیز تو ایمان و اطاعت اور صبر و استقلال ہے یہ باتیں جسمیں ہونگی وہ ہمارا محبوب ہے کافر اور مشرک میں یہ باتیں کہاں رکھی ہیں جو وہ ہمارے محبوب اور پسندیدہ ہوں گے اور نہ یہ شکست و فتح پر موقوف ہے کہ کوئی یہ سمجھ لے کہ جس کی فتح ہوئی وہی خدا کا دوست ہے اور جس کی شکست ہوئی وہ خدا کا مبغوض ہے ۔ فتح و شکست تو جنگ کے لازمی نتائج ہیں ان سے ہماری محبت و عدم محبت کو نہ جانچا کرو بلکہ محبت کا تعلق ایک اور چیز سے ہے اور فتح و شکست کا تعلق اور چیز سے ہے۔ جملہ معترضہ کے بعد پھر فرمایا کہ ہماری حکمتوں میں سے تیسری حکمت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے اخلاق و اعمال کا تصفیہ کردیں اور مسلمانوں سے میل کچیل کو دور کردیں تمحیص کے معنی ہیں نکھارنا جس طرح سونے چاندی کو گلا کر ان کا میل کچیل صاف کرتے ہیں اسی طرح ہمارا مقصد یہ تھا کہ تم کو مصائب و شدائد میں مبتلا کر کے ہر قسم کے میل کچیل سے تم کو صاف کردیں اور تمہارے اعمال و اخلاق کو نکھار دیں اور آخری حکمت یہ فرمائی کہ اس طرح ہم کافروں کو آہستہ آہستہ مٹا دیں۔ محق کے معنی ہم تیسیر پارے میں بتا چکے ہیں محق کے معنی تھوڑا تھوڑا کسی چیز کو کم کردینا جس طرح چاند کا نور آہستہ آہستہ روز بروز کم ہوتا رہتا ہے اور آخر ایک دن سب نور ختم ہوجاتا ہے اسی طرح ہماری حکمت یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا کر کے کافروں کی قوت کو ختم کردیں اگر ہر سال تم ہی غالب ہوتے رہو تو کافر لڑنے کو آمادہ نہ ہوں گے اور اگر کبھی تم بھی مغلوب ہو جائو گے خواہ مغلوب ہونے میں تمہاری بھی کوتاہی کو دخل ہو تو پھر ان کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ تم سے لڑنے کو آئیں گے اور اس طرح ہم ان کے زور کو توڑ دیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم پر ظلم کرنے سے وہ خدا کے قہر میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجائیں گے اور کثرت مظالم سے ان کی تباہی کا پروا نہ لبریز ہوجائے گا اور جلد تباہ ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی فتح اور شکست بدلتی چیز ہے اور مسلمانوں کو شہادت کا درجہ ملنا تھا اور مومن اور منافق کا پرکھنا منظور تھا اور مسلمانوں کو سدھارنا اس واسطے اتنی شکست ہوئی نہیں تو اللہ کافروں سے راضی نہیں۔ (موضح القرآن) سبحان اللہ ! حضرت شاہ صاحب نے کس قدر مختصر اور جامع خلاصہ بیان کیا ہے جو حضرت شاہ صاحب ہی کا حصہ ہے اور یعلم کا ترجمہ پرکھنا اور تمحیص کا ترجمہ سدھارنا بھلا اس اردو کا جواب کیا ہوسکتا ہے۔ مس القوم قرح مثلہ سے بعض حضرات نے انبیاء سابقین اور ان کے ساتھی مراد لئے ہیں اور مطلب یوں بیان کیا ہے کہ اگر تم کو زخم اور مصائب پہنچے تو یہ کوئی نئی بات نہیں تم سے پہلے پیغمبروں اور مسلمانوں کو بھی اس قسم کی تکالیف پہنچ چکی ہیں مگر ہم نے اس کو غیر مشہور ہونے کی وجہ سے اختیار نہیں کیا۔ اس آیت میں مثل کا لفظ ہر اعتبار سے مماثل نہیں جیسا کہ تسہیل میں معلوم ہوچکا۔ اب آگے مسلمانوں کی مزید تقویت اور اطمینان کی غرض سے ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top