Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 143
وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ١۪ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْهُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : تم تمنا کرتے تھے الْمَوْتَ : موت مِنْ قَبْلِ : سے قبل اَنْ : کہ تَلْقَوْهُ : تم اس سے ملو فَقَدْ رَاَيْتُمُوْهُ : تو اب تم نے اسے دیکھ لیا وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور بلاشبہ تم تو موت کی ملاقات سے پہلے راہ حق میں مرنے کی تمنا کیا کرتے تھے سو اب تو تم نے اس موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا1
1 ہاں تو اے مسلمانو ! کیا تم نے یہ خیال کر رکھا ہے اور تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم یوں ہی جنت میں بغیر کسی آزمائش و امتحان کے داخل ہو جائو گے حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ظاہری طور پر جانا ہی نہیں جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور ان مسلمانوں کو نمایاں نہیں فرمایا جنہوں نے تم میں جہاد کیا ہو اور نہ ابھی ان کو ظاہری طور پر دیکھا اور نہ نمایاں کیا جو مصائب پر ثابت قدم رہنے والے اور جہاد کی تکالیف کو برداشت کرنے والے ہیں اور بلاشبہ تم تو موت کی ملاقات کرنے اور موت کے سامنے آنے سے پہلے موت کی بڑی تمنا اور شہید ہو کر مرنے کی بڑی آرزو کیا کرتے تھے۔ لہٰذا اب تو تم نے اس موت کو اپنی کھلی آنکھوں دیکھ لیا تھا اور موت کا سامان تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا پھر کیوں بھاگ کھڑے ہوئے اور موت کو آتا دیکھ کر کیوں گھبرا اٹھے۔ (تیسیر) جنت میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی سرزنش اور عذاب کے دخول اولی حاصل ہو اور درجات عالیہ میسر ہوں۔ سو یہ مرتبہ بدون مشقت اور تکالیف کے حاصل نہیں ہوتا اور نہ یوں جنت میں جانے کو تو ہر مسلمان داخل ہو ہی جائے گا خواہ عذاب بھگت کر یا رحمت خداوندی کے بل پر۔ جہاد اور صبر کا مطلب یہ ہے کہ جہاد پوری طرح ہو اور اس جہاد میں خوب مصائب برداشت کرے ورنہ چھوٹی موٹی جھڑپیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ یعلم کا مطلب وہی ہے جو ابھی ہم بیان کرچکے اور دوسرے پارے میں اس کی تفصیل ہوچکی ہے عدم علم سے مراد شئے کی نفی ہے کیونکہ حضرت حق کے علم کا تعلق معلومات سے ہوتا ہے جب علم کی نفی فرمائی تو معلومات جو علم کا متعلق ہے اس کی بھی نفی ہوگئی جیسے کہا کرتے ہیں۔ ماعلم اللہ فی قلان خیراً تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص میں خیر ہی نہیں اگر ہوتی تو علم الٰہی کا اس سے تعلق ہوتا یہاں بھی مطلب یہی ہے نہ تم میں کسی نے آج تک جم کر جہاد کیا نہ جہاد کے مصائب پر صبر کیا اگر کوئی ایسا کرتا تو اللہ تعالیٰ کے علم کا اس سے تعلق ہوتا اور وہ اس کی معلومات میں سے ہوتا۔ بہرحال دوسری صورت وہ ہے جو ہم نے ترجمہ میں عرض کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابھی جہاد کرنے والوں کو جہاد نہ کرنے اور جی چرانے والوں سے متمیز نہیں فرمایا۔ نہ صابروں کو غیر صابروں سے ابھی نمایاں کیا۔ دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ بعض مسلمان شہدائے بدر کے فضائل سن سن کر شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش ! ہم کو بھی کوئی ایسا موقعہ میسر آئے اور ہم بھی شہادت کا درجہ پائیں اور ان فضائل کو حاصل کریں جو شہدائے بدر کو حاصل ہوئے تھے ان کو اس آیت میں تنبیہہ ہے کہ یا تو شوق شہادت کا یہ عالم تھا اور یا اب یہ حالت ہے کہ جب شادت کا موقعہ آیا اور شہادت کا سامان دکھائی دیا اور مرنے اور جان دینے کا وقت آیا تو میدان شہادت چھوڑ نکلے اس لئے مسلمانوں پر تعریض اور ملامت فرمائی اور ہم اوپر غزوئہ احد کے حالات مختصر عرض چکے ہیں اس دن سوء اتفاق سے ہوا یہ کہ جب نبی کریم ﷺ نے عبداللہ بن جبیر کی سرکردگی میں ایک دستہ پچاس تیر اندازوں کا گھاٹی میں متعین کیا تو یہ فرما دیا کہ تم لوگ جب تک یہاں بیٹھے رہو گے کافر ہم پر غالب نہیں ہوں گے چناچہ جب جنگ شروع ہوئی تو مسلمان اللہ کے حکم سے غالب آئے اور کفار قریش کو زیہمت ہوئی اور کافر بری طرح بھاگے ، مسلمان مال غنیمت پر قبضہ کرنے میں مشغول ہوگئے۔ گھاٹی کے بیٹھنے والوں نے جب یہ دیکھا تو عبداللہ بن جبیر کی مرضی کے خلاف سوائے گیارہ آدمیوں کے سب نکل پڑے اور مال غنیمت حاصل کرنے میں شامل ہوگئے بھاگتے ہوئے کافروں نے گھاٹی خالی دیکھی تو خالد بن ولید نے اپنے لشکر کو لے کر گھاٹی پر حملہ کردیا۔ گیارہ آدمیوں نے مقابلہ کیا مگر بےسود رہا۔ مسلمانوں کو شہید کردیا اور خالد نے گھاٹی پار کرلی اور جو مسلمان مال غنیمت جمع کر رہے تھے ان پر کافر ٹوٹ پڑے اسلامی فوج میں ابتری اور سراسیمگی پھیل گئی ابن قمیہ نے ایک پتھر نبی کریم ﷺ پر پھینکا جس سے چہرہ انور زخمی ہوگیا ایک دانت شہید ہوگیا اور آپ ﷺ لہولہان ہوگئے اور آپ زمین پر بیٹھ گئے اور آپ ﷺ پر غشی طاری ہوگئی۔ ابن قمیہ نے چاہا کہ آپ کو شہید کر دے مگر مصعب بن عمیر جو اسلامی فوج کے علمبردار تھے انہوں نے مدافعت کی اس وقت کسی شیطان نے یہ آواز لگا دی کہ محمد ﷺ قتل کردیئے گئے۔ اس افواہ نے مسلمانوں کا دماغ مختل کردیا اور لوگوں میں مختلف باتیں ہونے لگیں۔ کسی نے کہا ابوسفیان سے امان طلب کرو ، منافقوں نے کہا کہ جب محمد ﷺ قتل ہوگئے تو اب اپنا پہلا ہی دین اختیار کرلو کسی نے کہا اب اگر محمد ﷺ نہیں ہیں تو ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے چلو لڑو اور سب شہید ہو جائو۔ کسی نے کہا اگر محمد ﷺ قتل ہوگئے تو خدا تو نہیں ختم ہوگیا۔ وہ تو حی الایموت ہے اور جب اب محمد ﷺ زندہ نہ رہیتو آئو جس کے نام پر حضور ﷺ شہید ہوئے ہیں ہم بھی لڑ کر اسی کے نام پر شہید ہوجائیں۔ چناچہ مخلصین کی ایک جماعت کمر بستہ ہو کر لڑنے میں مشغول ہوگئی اتنے میں نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ الی عباد اللہ انا رسول اللہ اے اللہ کے بندو ! میرے پاس آئو میں اللہ کا رسول ہوں جس طرح آپ کی وفات کو سن کر س کے دل ٹوٹ گئے تھے زندگی کی خبر سنتے ہی جو لوگ بھاگ رہے تھے اور پہاڑیوں کی طرف رخ کئے چلے جا رہے تھے ان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نئے سرے سے ڈھارس بندھ گئی اور مسلمان سمٹ کر حضور ﷺ کے چاروں طرف جمع ہوگئے سب سے پہلے کعب بن مالک نے آپ ﷺ کو پہچانا اور انہوں نے چلا کر کہا کہ مسلمانو ! ادھر آئو محمد ﷺ زندہ ہیں۔ چنانچہ جب سب لوگ جمع ہوگئے اور پھر حملہ کی تیاری کرنے لگے تو مشرکین واپس چلے گئے ان ہی واقعات کے متعلق آگے کی آیتوں میں مسلمانوں پر تعریض ہے اور تسلی اور تقویت قلب کا سامان ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top