Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 152
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ صَدَقَكُمُ : البتہ سچا کردیا تم سے اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗٓ : اپنا وعدہ اِذْ : جب تَحُسُّوْنَھُمْ : تم قتل کرنے لگے انہیں بِاِذْنِھٖ : اس کے حکم سے حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَشِلْتُمْ : تم نے بزدلی کی وَ تَنَازَعْتُمْ : اور جھگڑا کیا فِي الْاَمْرِ : کام میں وَعَصَيْتُمْ : اور تم نے نافرمانی کی مِّنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَرٰىكُمْ : جب تمہیں دکھایا مَّا : جو تُحِبُّوْنَ : تم چاہتے تھے مِنْكُمْ : تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الدُّنْيَا : دنیا وَمِنْكُمْ : اور تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الْاٰخِرَةَ : آخرت ثُمَّ : پھر صَرَفَكُمْ : تمہیں پھیر دیا عَنْھُمْ : ان سے لِيَبْتَلِيَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے وَلَقَدْ : اور تحقیق عَفَا : معاف کیا عَنْكُمْ : تم سے (تمہیں) وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور یقینا اللہ تعالیٰ تو تم سے اپنا وعدہ اس وقت سچا کرچکا تھا جس وقت تم کافروں کو اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے خود ہی ہمت ہار دی اور حکم کی تعمیل میں باہم جھگڑنے لگے اور بعد اس کے کہ تم کو تمہاری دل خواہ چیز یعنی فتح اللہ تعالیٰ نے دکھا بھی دی تم نے عدول حکمی کی تم میں سے بعض وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں سے آخرت کے خواہشمند تھے تب اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی طرف تمہارا رخ پھیر دیا تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں پر بڑا فضل کرنیوالا ہے۔1
1 اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تو تم سے اپنا وعدئہ نصرت و فتح کو اس وقت سچا کرچکا تھا اور تم کو اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جس وقت تم ان کافروں کو خدا کے حکم سے ابتدائے جنگ ہی میں کاٹ رہے تھے اور قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے خود ہی بزدلی اور کمزوری دکھائی اور تم نے نامردی کی اور پیغمبر ﷺ کے حکم کی تعمیل میں باہم جھگڑنے اور اختلاف کرنے لگے اور باوجود اس کے کہ تمہاری محبوب اور دل خواہ چیز تم کو آنکھوں سے دکھا دی تم نے پیغمبر کی عدول حکمی کی اور ان کے کہنے پر نہ چلے تمہاری اس وقت یہ حالت تھی کہ بعض تم میں سے وہ تھے جو دنیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور بعض وہ تھے جو صرف آخرت چاہتے تھے اور آخرت ہی کے طلبگار تھے پھر اس حالت کے بعد ہی پاسہ پلٹ گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی طرف سے تمہارا رخ پھیر دیا اور تم کو کافروں کے مقابلہ میں پسپا کردیا اور معاملہ الٹ گیا تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کی آزمائش فرمائے۔ اور یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف فرما دیا اور تمہارے قصور سے در گزر فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑا صاحب فضل ہے اور مسلمانوں کے حال پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ (تیسیر) حس کے معنی ہیں کسی چیز کو کاٹ کاٹ کر ختم کرنا مثلاً درخت کو یا کھیتی کو یہاں مراد یہ ہے کہ کافروں کا استیصال کردینا۔ یعنی بکثرت قتل کرنا، تنازع کے معنی باہم رائے میں اختلاف کرنا جھگڑنا عصیاں کے معنی نافرمانی کرنا۔ عدول حکمی کرنا حکم کے بجا لانے میں کوتاہی کرنا۔ ماتحبون سے مراد یہاں فتح اور کامرانی ہے صرف کے معنی ہیں پھیر دینا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اگر تم مستقل مزاجی اور تقویٰ سے کام لو گے تو ہم تم کو کامیاب کریں گے یہ وعدہ تو ابتداء ہی میں اس نے سچا کردیا جبکہ تم ان کو اس کے حکم سے گاجر مولی کی طرف کاٹ رہے تھے مگر تم لوگوں نے آپس میں جھگڑا شروع کردیا اور گھاٹی کے بیٹھنے والوں نے عبداللہ بن جبیر کی یا نبی کریم ﷺ کی عدول حکمی کی ۔ تم سے کہا تھا بیٹھے رہنا مگر تم قبل از وقت گھاٹی چھوڑ آئے اور مال غنیمت کے حصول میں لگ گئے۔ حالانکہ فتح و کامرانی تم کو دکھا دی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے فتح کھڑی تھی مگر تم نے بنی بنائی فتح کو خود بگاڑا گھاٹی والوں نے گھاٹی چھوڑی دی اور تم مال غنیمت کے منگوانے میں ان کافروں کے پیچھے دوڑے چلے گئے رسول ﷺ کو پکارتا رہا مگر تم نے ایک نہ سنی دنیا کی رغبت اور محبت اگرچہ یہاں بالذات نہیں معلوم ہوتی اور صحابہ کی دنیا طلبی بھی حصول آخرت کی غرض سے ہی تھی۔ جیسا کہ بعض اہل سلوک نے فرمایا ہے لیکن حضرات صحابہ کے لئے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا اور تعریض کے طور پر فرمایا کہ کوئی تم میں سے دنیا کو مقصد بنا بیٹھا اور کوئی تم میں سے آخرت کا طالب رہا۔ یعنی جو گھاٹی میں بیٹھے رہے یا وہ لوگ جو پیغمبر کو گھیرے رہے اور آپ کے نگراں اور محافظ بنے رہے اور جب دنیا کی محبت قلب میں آتی ہے تو بزدلی اور نامردی اس کا لازمی نتیجہ ہے جیسا کہ ابو دائود کی روایت سے معلوم ہوچکا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے جب تک یہ آیت نازل نہیں ہوئی مجھے بالکل اس کا علم نہیں ہوا کہ ہم میں سے بھی کوئی ایسا ہے جو حصول دنیا کا طالب ہو بہرحال جب یہ کوتاہیاں اور بد عنوانیاں تم سے سرزرد ہوئیں تو تم کو آزمانے اور تمہارے ایمان کا امتحان لینے کی غرض سے پاسہ پلٹ گیا اور خالد بن ولید کو گھاٹی میں گھس آنے کا موقعہ مل گیا اور یا تو وہ کافر بھاگ رہی تھے اور یا اب تم بھاگنے لگے۔ بہرحال فشل تنازع فی الامر امیر کے حکم کی خلاف ورزی یہ چند باتیں اوپر تلے ایسی ہوئیں جن کی نحوست سے فتح و شکست سے بدل گئی۔ اور ہم نے دوسرا طریقہ ابتلا کا اختیار کیا یعنی فتح و نصرت میں بھی امتحان تھا اور اب مصائب و آلام میں بھی امحتان مقصود ہے۔ ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ کامرانی کی غرض بھی یہ ہوتی ہے کہ دیکھیں کہاں تک شکر بجا لاتے ہو اور مصائب و آلام اور ناکامی کی بھی یہ غرض ہوتی ہے کہ دیکھیں کہاں تک صبر کرتے ہو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ تمام غلطیاں اجتہادی ہوں اور یہ بھی ہو سکات ہے کہ ان کو اپنی غلطیوں پر ندامت ہوئی ہو بہرحال معافی کا اعلان کردیا گیا اور قیامت کے مواخذے سے سبکدوش فرما دیا اور لوگوں کو ان کی شان میں کوئی قابل اعتراض بات کہنے سے روک دیا اور یہ صحابہ کرام کے حال پر بہت بڑی شفقت و عنایت ہے جیسا کہ اس شفقت آمیز اور کرم آلود عتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ غلطیوں کے ذکر میں معافی کا اعلان بھی فرما دیا اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر بڑا ہی فضل ہے۔ نعمت دیکر آزمائے جب بھی اس کا فضل ہے تکلیف دیکر آزمائے جب بھی اس کا فضل ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اول غلبہ مسلمانوں کا تھا کہ کافروں کو مارتے تھے اور وہ بھاگتے تھے اور آثار فتح کے نظر آتے تھے کسی کو خوشی تھی مال کی اور کسی کو غلبہ اسلام کی جب مسلمانوں سے پیغمبر کی بےحکمی ہوئی تب مقدمہ الٹ ہوگیا وہ بےحکمی ایک یہ کہ حضرت نے پچاس آدمی تیر انداز پہاڑ کی راہ پر کھڑے کئی تھے نگہبانی کو باقی لشکر لڑنے لگا جب ان تیر اندازوں نے فتح اور غلبہ دیکھا اس جگہ سے چاہا چلے آویں شریک فتح ہوں اور غنیمت لیویں۔ بعضوں نے منع کیا وہ نہ مانے وہاں دس آدمی رہ گئے اس طرف سے کافروں کی فوج پچھاڑی پر آ پڑی دوسری یہ کہ جب کافر بھاگنے لگے تو مسلمان دوڑے تعاقب کو حضرت پیچھے سے پکارتے رہے کہ میری طرف آئو آگے مت جائو اس طرف جو غنیمت نظر آئی لوگ نہ پھرے اس بےحکمی سے شکست پڑی۔ (موضح القرآن) اس آیت سے معلوم ہوا کہ امیر کی مخالفت کا کبھی تمام قوم کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جیسا کہ عبداللہ بن جبیر کی مخالفت کا نتیجہ ہوا ۔ اسی طرح پیغمبر کی عدول حکمی خواہ عوام کی جانب سے ہو مگر عتاب میں خواص بھی مبتلا ہوتے ہیں جیسا احد میں ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بےحکمی سے نعمت سلب ہوجاتی ہے جیسا کہ فتح کی نعمت ہاتھ سے جاتی رہی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح ایک نیکی سے دوسری نیکی کی توفیق نصیب ہوتی ہے اسی طرح ایک غلطی اور بےحکمی سے بہت سی غلطیوں اور بےحکمیوں کی جرأت ہوتی ہے اور ایک برائی دوسری برائی کا سبب ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کی رغبت بعض دفعہ بہت سی خطائوں کا موجب ہوجاتی ہے۔ حب الدنیا راس کا خطیئۃ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اجتہادی غلطی قابل عفو ہے بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہادی خطا پر بھی اجر ملتا ہے آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا مرتبہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیوی مصائب کفارہ سیئات کا موجب ہوتے ہیں اور اخروی گرفت کو ہٹا دیتے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کی طلب اگرچہ دینی غرض سے ہو لیکن خواص کے حق میں محمود نہیں۔ واللہ اعلم و علمہ اتم و احکم حضرت بایزید بسطامی (رح) نے خوب فرمایا کہ منکم من یرید الدنیا حضرت حق کی جانب سے شکوہ ہے کہ کسی کو دنیا مطلوب ہے اور کسی کو آخرت لیکن وہ کون ہے جس کو صرف میری ذات مطلوب ہو اب آگے پھر ان ہی امور کا تتمہ ہے۔ (تسہیل)
Top