Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے زخم خوردہ ہونے کے باوجود اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا ان میں سے جو لوگ نیک کردار اور پرہیز گار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے ۔2
2 جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے کہنے کو قبول کرلیا بعد اس کے کہ وہ زخم خوردہ تھے اور ان کو زخم لگ چکا تھا اور باوجود زخمی اور زخم خوردہ ہونے کے اللہ و رسول کی دعوت الی الجہاد پر لبیک کہا ان لوگوں میں جو لوگ نکو کار اور متقی و پرہیز گار ہیں ان کے لئے آخرت میں بہت بڑا اجر وثواب ہے۔ مفسرین کے ان آیات کے بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ ان کا تعلق غزوئہ حمراء الاسد سے ہے جو مدینہ منورہ سے تقریباً آٹھ میل ہے اور دوسرا قول جو مجاہد و عکرمہ کی طرف منسوب ہے وہ یہ ہے کہ ان آیات کا تعلق بدر صغریٰ سے ہے جو تقریباً غزوئہ احد کے ایک سال بعد واقع ہوا چونکہ حسن اتفاق سے یہ دونوں غزوے آپس میں ملتے جلتے ہیں اس لئے دونوں قول زیر بحث آگئے غزوئہ حمراء الاسد میں بھی مسلمان زخم خوردہ تھے بلکہ تازہ زخم خوردہ تھے اور بدر صغیرٰ میں بھی زخم خوردہ تھے اگرچہ زخموں کو عرصہ ہوگیا تھا۔ غزوئہ حمراء الاسد میں بھی ابو سفیان نے قبیلہ عبد القیس کے قافلے والوں کو سمجھا بجھا کر بھیجا تھا کہ مسلمانوں کو مرعوب کرنا اور کہنا ابوسفیان پوری قوت کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور بدر صغیرٰ کے موقعہ پر نعیم بن مسعود کو اس کام کے لئے مدینہ منورہ بھیجا تھا کہ جا کر مسلمانوں کو مرعوب کرو اور ا ن سے کہو بدر صغریٰ کا معرکہ بڑا زبردست ہوگا اور اب کہ ابوسفیان بڑی تیاری سے آ رہا ہے ۔ پھر جس طرح حمراء الاسد میں کافر مرعوب ہوگئے اور مقابلہ کی ہمت نہیں پڑی یہی حشر کافروں کا بدر صغریٰ میں ہوا اور حمراء الاسد میں جس طرح مسلمانوں نے کچھ تجارت کا مال خرید کر نفع کمایا اسی طرح بدر صغریٰ پر بہت سامال فروخت کر کے خوب نفع کمایا ان اسباب کی بنا پر مفسرین کی شان نزول کے بارے میں دو رائیں ہوگئیں اکثر کی رائے یہی ہے کہ غزوئہ حمراء الاسد مراد ہے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ نہیں بلکہ بدر صغریٰ کا واقعہ مراد ہے اور چونکہ دونوں واقعے آپس میں ملتے جلتے ہیں اس لئے اس بحث میں زیادہ کھینچا تانی نہیں ہونی چاہئے۔ قرآن کریم کی عمومیت کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کا مقصد دونوں غزوئوں کی طرف اشارہ کرنا ہو اور یہ کچھ مستعد نہیں۔ (واللہ اعلم) غزوئہ حمراء الاسد جب ابوسفیان احد کی جنگ سے اپنے لشکر کو لیکر لوٹا اور روحائک آگیا جو مکہ اور مدینہ کے وسط میں ایک مقام ہے تو اس کو ہوش آیا اور اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور یہ خیال ہوا کہ ہم اپنی کامیابی کو چھوڑ کر چلے آئے اگر ایک حملہ دبا کر اور کرتے تو مسلمانوں کو ہمیشہ کو قصہ ختم ہوجاتا یہ خیال کر کے دوبارہ واپسی کا قصد کیا۔ یہ بات جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جمع کر کے ابو سفیان کے تعاقب کا حکم دیا اگرچہ مسلمان زخموں سے چور ہو رہے تھے لیکن انہوں نے اللہ اور رسول کی اس دعوت کو قبول کیا اور ابوسفیان کے تعاقب میں روانہ ہوگئے اور حمراء الاسد تک پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کے قلب میں رعب ڈال دیا اور وہ بجائے واپس آنے کے مکہ چلا گیا راستے میں اس کو قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ ملا قافلہ والوں سے یہ کہتا گیا کہ تم ذرا اتنا کام کرنا کہ مسلمانوں کو ہماری طرف سے خوف دلانا اور کہنا کہ ابوسفیان بہت بڑی تیاری کر رہا ہے اور اب کی دفعہ اس کا خیال ہے کہ ہم مسلمانوں کا بالکل خاتمہ کردیں گے مسلمانوں نے ان باتوں کو سن کر کہا۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل اور اتفاقاً حضور ﷺ کو تاجروں کا وہاں ایک قافلہ مل گیا اور مسلمانوں نے اس قافلہ سے کچھ مال خرید لیا اور اس مال میں مسلمانوں کو بڑا نفع ہوا۔ غزوئہ بدر صغیرٰ یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ ابو سفیان نے احد سے لوٹتے وقت کہا تھا کہ ہم آئندہ بدر صغیرٰ میں موسم کے موقعہ پر تم کو ختم کریں گے اور پھر بدر میں لڑائی ہوگی۔ نبی کریم ﷺ نے اس چیلنج کو منظور کرلیا لیکن آئندہ موسم کے موقعہ پر مکہ میں قحط پڑگیا ابوسفیان کا لشکر مرظہر ان تک آیا بھی لیکن پھر ہمت نہیں پڑی اور اس موقعہ پر ایک شخص نعیم بن مسعود کو کچھ دیکر اس خدمتپر مقرر کر گیا کہ توجا کر مسلمانوں کے سامنے ہماری قوت اور ساز و سامان کا چرچا کرتا کہ مسلمان مرعوب ہوجائیں اور بار میں نہ آئیں اور ہماری بات بن جائے۔ یہاں نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں مسلمانوں کو جمع کر کے ایک تقریر کی اور ابوسفیان کا چیلنج یاد دلایا اور تقریر میں آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم لوگ میرے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہو گے تو میں تنہا تلوار لے کر چلا جائوں گا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مدد کرے گا اور میں اکیلا ہی کامیاب ہو کر لوٹوں گا مسلمانوں پر ایک طرف احد کے زخموں کا اثر تھا بعض کے زخم اچھے نہ ہوئے تھے۔ ادھر نعیم بن مسعود کی باتوں کا چرچا تھا کہ اب کہ ابوسفیان بڑی تیاری سے آ رہا ہے لیکن مسلمانوں نے کہا۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل اور مسلمانوں کا کمال ایمانی اور بڑھ گیا اور اس میں مزید قوت پیدا ہوگئی چناچہ نبی کریم ﷺ حسب وعدہ بدر میں پہنچ گئے دشمن تو آیا نہیں اور موسم کی وجہ سے وہاں بازار لگتا تھا مسلمانوں نے وہاں خوب تجارت کی اپنا مال وہاں فروخت کیا اور نفع کما کر وہاں سے واپس آگئے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو مرعوب کردیا اور وہ میدان بدر تک نہیں پہنچ سکے۔ ان ہی دونوں واقعوں کا آگے کی آیتوں میں ذکر ہے (یہی دونوں واقعے آگے کی آیتوں میں مذکور ہیں) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جب جنگ احد فتح ہوئی ابو سفیان جو کہ سردار تھا اور کافروں کا کہہ گیا کہ اگلے بدر پر پھر لڑائی ہے اور حضرت نے قبول کرلیا ۔ جب اگلا سال آیا حضرت نے لوگوں کو حکم کیا کہ چلو لڑائی کو اس وقت جنہوں نے رفاقت کی اور تیار ہوئے ان کو یہ بشارت ہے کہ شکست کے بعد پھر جرأت کی ۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب کا رجحان بھی مجاہد اور عکرمہ کی تفسیر کی جانب معلوم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا۔ للذین احسنوا منھم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں کچھ محسن اور کچھ غیر محسن تھے اور کچھ متقی اور کچھ غیر تمقی تھے بلکہ یہ ایک اعلان ہے جو ایسے موقعہ پر ہوا کرتا ہے کہ جو وفادار رہے گا اس کو انعام ملے گا خواہ سب کے سب وفادار ثابت ہوں اور ظاہر ہے کہ جنہوں نے باوجود زخمی ہونے کے اللہ و رسول کی دعوت جہاد کو قبول کیا وہ سب ہی محسن اور متقی تھے اور سب ہی اجر عظیم کے مستحق تھے۔ اب آگے اسی قصہ کا تتمہ ہے۔ (تسہیل)
Top