Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 175
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ١۪ فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں ذٰلِكُمُ : یہ تمہیں الشَّيْطٰنُ : شیطان يُخَوِّفُ : ڈراتا ہے اَوْلِيَآءَهٗ : اپنے دوست فَلَا : سو نہ تَخَافُوْھُمْ : ان سے ڈرو وَخَافُوْنِ : اور ڈرو مجھ سے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرایا کرتا ہے سو تم ان شیطان کے دوستوں سے نہ ڈرنا اور صرف مجھ ہی سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو1
1 چناچہ یہ لوگ واپس آئے اور اس شان کے ساتھ واپس آئے کہ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ لوٹے یعنی ثواب اور تجارت کے نفع سے مالا مال ہو کر واپس آئے اور ان کو ذرا بھی کوئی ناگوار بات پیش نہیں آئی اور کسی معمولی سی تکلیف نے بھی ان کو مس تک نہیں کیا اور وہ لوگ رضائے الٰہی اور اس کی مرضی کے تابع رہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔ مسلمانو ! سوائے اس کے کوئی بات نہیں کہ یہ بدخبر اور دہشت پھیلانے والا عملاًشیطان ہے جو اپنے ہم مذہب اور ہم مشرب دوستوں سے تم کو ڈراتا ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور صرف اللہ ہی ہے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ مسلمان جو محسن بھی تھے اور متقی بھی انہوں نے حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہا اور کفار کے تعاقب میں روانہ ہوگئے یا حسب وعدہ بدر پہنچے اور نہایت کامیاب واپس آئے ابوسفیان کے آنے کی ہمت نہ ہوئی اور یہ عافیت مال اور عزت سے بھرپور واپس آئے۔ نعمت سے مراد عزت سلامتی، عافیت، ثواب، دشمن پر دھاک وغیرہ اور فضل سے مراد مال ہے تجارت کا نفع ہے۔ لو یمسسھم سوء کا مطلب یہ ہے کہ جب مقابلہ نہیں ہوا تو مسلمانوں کو کوئی گذند ہی نہیں پہونچا رضائے الٰہی کی انباع کا یہ مطلب ہے کہ باوجود حالات کے ناساز گار ہونے کے پھر نکل کھڑے ہوئے اور زخموں کی پرواہ کئے بغیر خدا کے حکم کی تعمیل کرنے کو چل کھڑے ہوئے اور رضائے الٰہی پر ہی دراصل سے بہرہ ور ہوئے پھر شیطانی افعال کے مرتکب کو شیطان فرمایا جو شیطانی کام کرے وہ شیطان ہے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا اور بزدل بنانا اور جہاد سے روکنا یہ شیطان کا کام ہے۔ اولیاء ہ میں ہم نے اسی لئے ہم مشرب اور ہم مذہب کی قید لگا دی ہے تاکہ یہ شبہ نہ ہو کو شیطان کو تو بنی آدم کا دشمن فرمایا ہے دوستی کیسی ؟ یہاں شیطان سے ابلیس مراد نہیں ہے بلکہ بعض کافروں اور منافقوں کو ان کے عمل بد کی وجہ سے شیطان فرمایا ہے اور عملاً کی قید سے یہ فائدہ ہے کہ شیطانی کام کے وقت وہ شیطان ہیں ہوسکتا ہے کہ کل کو وہ تائب ہو کر مسلمان ہوجائیں اور شیطنت کو ترک کردیں۔ حضرت حق نے کفار کے خوف سے روکا اور اپنے ہی خوف کا حکم دیا اور ایمان کی شرط اس لئے لگائی کہ ایمان کا مقتضا یہی ہے کہ غیر اللہ کے ڈر سے دل پاک اور نڈر ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی وہ شخص جو خبر کہتا تھا اس کو شیطان سکھاتا ہے۔ (موضح القرآن) شاح صاحب نے شیطان کہنے کی ایک اور وجہ بیان فرمائی کہ چونکہ شیطان اس کو سکھاتا تھا اور وہ شیطان کی تعلیم پر چلتا تھا اس لئے اس کو شیطان فرمایا۔ فقیر عرض کرتا ہے کہ یہ انسان نما شیطان ہت ہی خطرناک ہیں ان کا ضرر بہت خوفناک ہے۔ اعاذنا اللہ منھم اس آیت میں مخلصین کو جو بشارتیں دی گئی ہیں اور ان کو جو مدح فرمائی ہے اور جن دینی اور دنیوی برکتوں سے ان کو نوازا ہے وہ سب اسی استجابت اور اتباع رضوان اللہ کی بدولت ہے جس کا ان آیتوں میں ذکر فرمایا ہے اور ہم کئی دفعہ عرض کرچکے ہیں کہ احکام کی تعمیل ہی وہ چیز ہے جو بندے کو بلند سے بلند مرتبے کا وارث بنا دیتی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ تجارت کے نفع کو فضل فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مطلقاًمال مذموم نہیں ہے اگرچہ بڑے لوگوں کے لئے مال کی کثرت محمود نہ ہو لیکن مال کی عام طور سے مذمت کرتے پھرنا اور ہر سرمایہ دار کو برا کہنا اور برا سمجھنا یہ طریقہ کوئی شرعی طریقہ نہیں ہے۔ بعض اہل سلوک نے فرمایا ہے خدا کے خوف کی تین قسمیں ہیں ایک اس کی عقوبت کا ڈر یہ ڈر تو عوام کا ڈر ہے اور اس کے بعد اور دوری کا خوف یہ خواص کا خوف ہے اور ایک ال لہ تعالیٰ کا خوف یہ اخص الخواص کا خوف ہے اور نبی کریم ﷺ کی مشہور دعا میں انہی تینوں قسموں کی طرف اشار ہ ہے۔ اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخظک واعوذ بک منک اب آگے نبی کریم ﷺ کی تسلی فرمائی اور منافقین کی ان حرکات سے رنج اور حزن آپ کو ہوتا تھا اس کا مداوا فرمایا۔ چناچہ ارشادہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top