Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 177
اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْئًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اشْتَرَوُا : انہوں نے مول لیا الْكُفْرَ : کفر بِالْاِيْمَانِ : ایمان کے بدلے لَنْ : ہرگز نہیں يَّضُرُّوا : بگاڑ سکتے اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
بلاشبہ جن لوگوں نے ایمان کو چھوڑ کر کفر خریدا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ذرہ بھر بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے3
3 یقین جانو ! جن لوگوں ن ایمان کو چھوڑ کر اس کی جگہ کفر اختیار کر رکھا ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کو ہرگز ذرہ برابر بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور ان کو نہایت ہی درد ناک عذاب ہوگا۔ اور بڑی درد ناک سزا ملے گی۔ (تیسیر) اس آیت میں عام طور سے فرمایا کوئی منافق ہو کافر ہو پھر کافر بھی یہودی ہو نصرانی ہو غرض کوئی ہو کہیں کا ہو جو اس صلاحیت اور استعداد کو چھوڑ کر جس سے ایک انسان اسلام قبول کرتا ہے اور اس استعداد اور صلاحیت سے کام لے گا جو کفر قبول کرنے میں ممد و معاون ہوتی ہے تو ایسے لوگ سن لیں کہ وہ اللہ کے دین کا کوئی نقصان نہیں کرسکتے اور ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو اپور ذکر ہوچکا ہے۔ یعنی بڑا عذاب اور انتہائی درد ناک عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا ۔ یہاں اسی ایک استعداد کو معطل اور دوسری استعداد سے کام لینے کو خریدو فروخت سے تعبیر کیا ہے ورنہ حقیقی خریدو فروخت نہیں ہے بلکہ ایک چیز کے بدلے میں جس کو اگر چاہتے تو اختیار کرسکتے تھے۔ (یعنی ایمان) دوسری چیز اختیار کرلی یعنی کفر گویا ایک چیز کے بدلے میں دوسری چیز لے لی۔ یہی مطلب ہے اشتروالکفر بالایمان کا جیسا کہ ہم کئی دفعہ بیان کرچکے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دوڑ دوڑ کر کفر کی طرف جائو اور یا کھلم کھلا کافر بنو، ایسے لوگ اللہ کو اور اس کے رسول کو اور اسلام کو تو کچھ نقصان پہنچا نہ سکیں گے البتہ خود ہی عذاب عظیم اور عذاب الیم کے مستحق ہوں گے اب آگے کافروں کی ایک بات کا جواب ہے ہم اوپر کئی مرتبہ عرض کرچکے ہیں کہ ان کی گرفت بھی حکمت سے خالی نہیں اور ان کا ڈھیل دینا بھی مصلحت سے خالی نہیں اسی ڈھیل اور مہلت کا ذکر فرماتے ہیں کیونکہ کافر اس مہلت سے یہ استدلال کرتے تھے کہ اگر واقعی اللہ کی نظر میں مغضوب ہیں تو وہ ہم کو پکڑ کر کیوں نہیں لیتا اور جب وہ کوئی گرفت نہیں کرتا اور ہم برابر مزے کر رہے ہیں تو قیامت میں بھی ہم سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور وہاں کا عیش بھی ہم کو ہی میسر آئے گا اس استدلال کی غلطی پر تنبیہہ کی جاتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top